میرے اور آپ کے اثاثہ جات پر ایف بی آر کی رسائی


قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس نے جو صبح سے رات تک جاری رہتا ہے مجھے ان دنوں پارلیمان ہائوس تک محدود کررکھا ہے۔ اُردو اور انگریزی کالموں کے لئے مواد کی ضرورت ہوتی ہے۔اس مواد سے ’’کام کی شے‘‘ ڈھونڈنے کے لئے سرکھپانا پڑتا ہے۔ تحریر کو دلچسپ اور رواں رکھنے کی فکر اور بڑھتی عمر کے ساتھ نازل ہوئی تھکن دل ودماغ پر اضافی بوجھ ہیں۔فرصت کے لمحات میسر ہوتے تو وقت نکال کر لیپ ٹاپ کھولتا۔

نادرا اورایف بی آر کی بنائی ان سائٹس پر جاتا جہاں ان اداروں نے لاکھوں پاکستانیوں کے اثاثہ جات کی تفصیلات فراہم کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔فوری ضرورت اس لئے محسوس نہیں ہوئی کیونکہ ٹیکس کے قابل آمدنی والی بریکٹ میں شامل ہوتے ہی آج سے دس برس قبل انکم ٹیکس ریٹرن کے فارم جمع کروانے کی عادت اختیار کرلی تھی۔ضرورت سے زیادہ پڑھاکو ہونے کا دعوے دار ہونے کے باوجود میں اگرچہ اس فارم کو ازخود پُر نہیں کرسکتا۔

اسلام آباد کے ایک دیانت دار،محنتی اور اپنے پیشے میں کامیاب ماہر سے رجوع کرتا ہوں۔ان سے پہلی بار رابطہ ہوا تووہ اپنے کام کا عوضانہ لینے کو تیار نہیں تھے۔ منت سماجت سے انہیںقائل کیا۔ مجھے کامل یقین ہے کہ وہ مجھ سے اپنے کام کی رعایتی اُجرت وصول کرتے ہیں۔آج تک سمجھ نہیں پایا ہوں کہ ‘‘جعلی اکائونٹس‘‘ کیا ہوتے ہیں۔ بے نامی جائیداد کے تصور کے بارے میں آگاہ ہوں مگر لوگ ان کی جانب کیوں راغب ہوتے ہیں اس کا تسلی بخش جواب حاصل نہیں کرپایا۔

کئی بار یہ خیال آتا ہے کہ اگر کسی شخص نے میری رضا مندی کے بغیر میرے نام سے کوئی جائیداد خرید رکھی ہے تو کاش مجھے اس کا علم ہوجائے اور میں دل وجان سے اس پر قبضہ حاصل کرنے کی لگن میں جت جائوں۔ پھر خیال آتا ہے کہ اپنے نصیب میں ایسی لاٹری لکھی ہی نہیں گئی۔ ہوش سنبھالتے ہی محض لکھنے اور بولنے سے رزق کمانے کی عادت اپنالی تھی۔ اس کے سوا دولت کمانے کا کوئی اور ذریعہ دریافت ہی نہ کرپایا۔ اب ’’آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے‘‘ والا معاملہ ہو چکا ہے۔

دو بینکوں میں تنخواہ اور کالموں کی بدولت آئے چیک جمع کروانے کے لئے اکائونٹس کھول رکھے ہیں۔ ان کی تفصیلات بھی ہر سال ٹیکس ریٹرن کے ساتھ فراہم کردی جاتی ہے۔ 500روپے خرچ کرکے اپنے بارے میں سرکار کو میسر معلومات جاننے کی زحمت کیوں اٹھائوں۔پیر کے روز پارلیمان میں موجود تھا تو چند صحافیوں نے یاددلایا کہ آج سے چند روز قبل میں نے اس کالم میں اس سکینڈل کا ذکر کیا تھا جس کے ذریعے انکشاف ہوا تھا کہ 45ہزار کے قریب پاکستانی جو حالیہ مہینوں میں غیر ملکی سفر کے بعد وطن لوٹے یا غیرممالک سے اپنے عزیزوں کو ملنے آئے سرکاری کھاتوںمیں ’’امپورٹڈ‘‘ فون ’’خرید‘‘ کر اپنے نام سے ’’رجسٹر‘‘ کروا چکے ہیں۔ حقیقت بلکہ یہ رہی کہ ان پاکستانیوں کی اکثریت نے کوئی فون ’’خریدا‘‘ ہی نہیں تھا۔

اسے رجسٹرکروانے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔پاکستان کے کئی شہروں میں موبائل فونز کا دھندا کرنے والوں کے پاس مگر حال ہی میں پاکستان کے کسی ایئرپورٹ پر لینڈکرنے کے بعد امیگریشن والوں کے ڈیسک سے اپنے پاسپورٹ پرپاکستان میں ’’داخلے‘‘ کی مہر لگوانے والوں کے بارے میں تمام معلومات پہنچ چکی تھی۔ فرض کیا میں کسی دوکان پر موجود سمگل شدہ فون کو خرید کر اسے PTAسے باقاعدہ رجسٹر کروانا چاہتا تو دوکاندار مجھ سے تین سے چار ہزار اضافی روپے لینے کے بعد میری مشکل آسان کردیتا۔

حکومتِ پاکستان کو اس ضمن میں دھیلہ بھی نہیں ملا۔ جس بدنصیب کے پاسپورٹ کی بدولت میں نے اس ’’سہولت‘‘ کا فائدہ اٹھایا اسے خبر تک نہ ہوئی کہ میں نے اس کے نام سے ’’خریدا‘‘ فون اپنے نام سے رجسٹر کروا لیا ہے۔ اس سکینڈل کو ذہن میں رکھتے ہوئے چند صحافیوں نے پیر کے روز میری توجہ اس حقیقت کی جانب دلائی کہ نادرا اور ایف بی آر کی جانب سے انٹرنیٹ پر موجود لاکھوں پاکستانیوں کے اثاثہ جات کے بارے میں حکومت کو میسر معلومات تک رسائی کے لئے آپ کو محض اپنا شناختی کارڈ نمبر لکھ کر 500روپے ادا کرنا ہے۔

اس کے بعد ایک بٹن دبانے سے اس شناختی کارڈ نمبر کے ’’اثاثہ جات‘‘ عیاں ہوجائیں گے۔مجھ سے گفتگو کرنے والوں کو شدید خدشہ لاحق تھا کہ ہمارے ’’تخلیقی اذہان‘‘ اس سہولت کو میرے اور آپ کے اثاثہ جات کی تفصیلات حاصل کرنے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ایمان داری کی بات ہے کہ میں نے یہ خدشات بیان کرنے والے ’’جونیئرز‘‘ کو سختی سے ڈانٹا۔ انہیں طعنے دئیے کہ وہ حکومت کے ہر کام میں کیڑے نکالنے کی بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں۔

شبر زیدی اور حماد اظہر بارہا اعلان کرچکے ہیں کہ غیر متعلقہ افراد میرے یا آپ کے اثاثہ جات کی تفصیلات تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ ہمیں ان کے کہے پر اعتبار کرنا چاہیے۔ بے بنیاد خوف پھیلانے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ میری جھک جھک سے اُکتا کر ایک نوجوان صحافی نے فقط یہ کہتے ہوئے اپنی جند چھڑائی کہ ’’سربس اتنا یاد کرلیجئے کہ گزشتہ چند مہینوں میں آپ نے کتنی بار اپنے شناختی کارڈ کی کاپی مختلف افراد کو فراہم کی ہے‘‘۔

اس سوال کا فوری جواب میرے پاس موجود نہیں تھا۔گھر لوٹنے کے بعد مگر نیند کی جستجو میں کروٹیں لیتے ہوئے خیال آیا کہ مارچ کے مہینے سے اس ماہ کے پہلے ہفتے تک میں ہر ہفتے تین دن کے لئے لاہور جاتا رہا ہوں۔اس حوالے سے بس کی نشست کے لئے ہمیشہ ایڈوانس بکنگ کروائی۔ ہوٹل میں چیک اِن ہونے سے قبل اپنا شناختی کارڈ دے کر اس کی کاپی استقبالیہ ڈیسک کے پاس جمع کروائی۔ ذاتی تجربے کو ذہن میں لاتے ہوئے خیال آیا کہ لاکھوں پاکستانیوں کے شناختی کارڈ نمبر فقط سرکاری ادارے ہی نہیں نجی بینکوں، ٹرانسپورٹ،ہوٹل اور جانے کون کون سی Servicesفراہم کرنے والے نجی اداروں کے ریکارڈ پر ہوںگے۔

اس ریکارڈ کی بنیاد پر ہمارے ’’تخلیقی اذہان‘‘ میرے اور آپ کے اثاثہ جات کی تفصیلات نادرا یا FBRکی انٹرنیٹ پر فراہم کردہ فہرست سے حاصل کرسکتے ہیں۔ مجھے اب بھی یقین ہے کہ فقط شناختی کارڈ نمبر ہی میرے اثاثہ جات کی تفصیلات تک رسائی کے لئے کافی نہیں ہوگا۔ نادرا یا FBRوالوں نے چند اضافی اقدامات بھی متعارف کروائے ہوں گے۔ اگر ایسا ہے تو ان اقدامات کو صراحت سے میڈیا کے ذریعے لوگوں کے سامنے لانا ضروری ہے۔

آج کے زمانے میں تمام تر احتیاط کے باوجود مختلف طاقت ور ریاستوں کے ماسٹر کمپیوٹرز تک بین الاقوامی Hackersرسائی حاصل کرچکے ہیں۔2016میں تواترسے بین الاقوامی میڈیا میں کہانیاں چھپیں جنہوںنے دعویٰ کیا کہ روس کی انٹیلی جنس ایجنسی کے مبینہ ایجنٹوں نے ہیلری کلنٹن کے حامیوں کے ای میل اکائونٹس Hackکرلئے۔ اوبامہ نے ان کہانیوں کی وجہ سے چند روسی سفارت کاروں کو اپنے وطن سے ’’ناپسنددیدہ افراد‘‘ ٹھہراکر باہر نکال دیا۔امریکی پارلیمان کی کمیٹیوں کو مسلسل یہ اطمینان دلایا جارہا ہے کہ ان کے ملک کی Cyber Spaceکو محفوظ بنالیا گیا ہے۔

چند دن قبل دعویٰ یہ بھی ہوا کہ امریکہ کے بجائے اب روسی سائبر Space’’غیر محفوظ‘‘ ہوچکی ہے۔ Cyber Warکے موجودہ ماحول میں ہماری ریاست کو اپنے ماسٹر کمپیوٹرز محفوظ ترین بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے۔اس ضمن میں ٹھوس معلومات تک رسائی نہ ہونے کے سبب میں فقط اپنے ربّ سے تحفظ کی دُعا ہی مانگ سکتا ہوں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).