انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ کے دورۂ کشمیر سے توقعات اور خدشات


امت شاہ

انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ بدھ سے جموں و کشمیر کا دو روزہ دورہ شروع کر رہے ہیں۔ یہ عام انتخابات میں بی جے پی کی فتح اور امت شاہ کے بطور وزیرِ داخلہ انتخاب کے بعد ان کا پہلا دورۂ کشمیر ہے۔

اس دورے کے دوران وہ گورنر ستیہ پال ملک اور اعلیٰ سکیورٹی حکام کے ساتھ تبادلۂ خیال تو کریں گے ہی لیکن یہ دورہ گورنر کے اُن اشاروں کے پس منظر میں ہو رہا ہے جو انھوں نے حالیہ دنوں علیحدگی پسندوں کے ساتھ بات چیت کے بارے میں دیے تھے۔

گورنر ملک نے دعوی کیا تھا کہ علیحدگی پسند گروپوں کے سیاسی اتحاد حریت کانفرنس کے رہنما مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ اس پر حریت کانفرنس نے مثبت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ حریت انڈیا اور پاکستان کے درمیان قیام امن کی کسی بھی کوشش میں بھرپور تعاون کرے گی۔

یہی وجہ ہے کہ امت شاہ کے دورے سے قبل ہی ہندنواز سیاسی جماعتوں، علیحدگی پسندوں اور سول سوسائٹی نے انڈین حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ ماضی کی فوجی پالیسی کے برعکس کشمیر میں انسانیت، ہمدردی اور مذاکرات کی پالیسی اپنائے۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیر:حکومت علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کرے گی؟

کشمیر میں’مذاکرات محض ایک سائیڈ شو‘

سابق وزرائے اعلی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے حکومت سے کہا ہے کہ کشمیر میں قیام امن کی کوششوں میں پاکستان کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔

حریت کانفرنس کے رہنما میرواعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ ‘جن لوگوں کے پیارے روزانہ مارے جارہے ہوں اُن سے بہتر امن کی اہمیت کون سمجھ سکتا ہے۔ ہم ہر اُس سنجیدہ اور مخلص کوشش پر بھرپور تعاون کریں گے جو مسئلہ کشمیر کے حل کی خاطر انڈیا اور پاکستان کی طرف سے کی جائے گی۔’

سابق رکن اسمبلی انجینیئر رشید نے امت شاہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس دورے کو اعتماد سازی کا سبب بنائیں۔ انھوں نے کہا : ‘امت شاہ کو اس پروپیگنڈا پر یقین نہیں کرنا چاہیے کہ حریت کی طرف سے بات چیت پر آمادگی اُس کی کمزوری کا ثبوت ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حریت کانفرنس کشمیریوں کی دیرینہ سیاسی آرزوؤں اور قربانیوں کی ترجمان ہے، لہٰذا پاکستان، حریت اور مسلح رہنماؤں کو بھی وسیع پیمانے کے مذاکراتی عمل کا حصہ بنایا جائے تو کشمیر میں امن قائم ہو سکتا ہے۔’

حریت رہنما

حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق، سید علی گیلانی اور یاسین ملک کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے

میرواعظ کے ساتھی اور حریت کانفرنس کے سابق سربراہ پروفیسر عبدالغنی بھٹ نے کہا: ‘بھارت اور پاکستان اپنے نزاعی معاملات نہ جنگ سے حل کر سکتے ہیں نہ بالواسطہ تشدد سے۔ ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے مذاکرات۔’

اگرچہ سرکاری طور پر مذاکرات کے بارے میں کچھ نہِیں کہا گیا، لیکن گورنر کے حالیہ بیان، حریت کے ردعمل اور وزیرداخلہ امت شاہ کے دورے سے لوگوں میں ملاجلا ردعمل پایا جاتا ہے۔

سرینگر میں مقیم ریسرچ سکالر انشا آفرین کہتی ہیں: ‘زمینی حالات ٹھیک کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے انڈین حکومت کو پہل کرنا ہو گی۔ نوجوان مارے جا رہے ہیں، اُن کا پولیس پیچھا کررہی ہے، درجنوں حریت قائدین جیلوں میں ہیں، اظہار رائے کی آزادی پر قدغنیں ہیں۔ اس ماحول میں کیا بات ہو گی اور بات کون کرے گا؟’

نئی دلّی اور کشمیری علیحدگی پسندوں کے درمیان مذاکرات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی کی تمام کوششیں فریقین کی طرف سے شرائط پر آ کر رُک جاتی تھیں۔ علیحدگی پسندوں کا موقف ہے کہ انڈیا کشمیر کو متنازع خطہ تسلیم کرے، فوجی قوانین معطل کرے، قیدیوں کو رہا کرے اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں کشمیری علیحدگی پسندوں کو بنیادی فریق تسلیم کرے۔

تاہم انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ وہ علیحدگی پسندوں کے ساتھ آئین ہند کے طے شدہ ضابطوں کے تحت بات چیت پر تیار ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حریت کانفرنس کشمیر کو انڈیا کا اٹوٹ انگ تسلیم کرے اور اقوام متحدہ میں منظور شدہ قراردادوں پر عمل کے لیے اصرار نہ کرے جن کے مطابق انڈیا اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیری خطوں میں رائے شماری کے ذریعہ آبادی کے سیاسی مستقبل کا تعین ہوگا۔

کشمیر

مبصرین کہتے ہیں کہ اگر اس بار فریقین غیرمشروط مذاکرات پر آمادہ ہوئے تو حالات میں بہتری کی توقع ہے۔ صحافی اور تجزیہ نگار ریاض ملک کہتے ہیں کہ اگر امت شاہ کا دورہ واقعی نئی دلی کے موقف میں تبدیلی کا مظہر ہے تو فریقین کو غیرمشروط بات چیت کرنی چاہیے۔

مذاکرات کے بارے میں حکومت ہند نے ابھی سرکاری طور پر کچھ نہیں کہا ہے۔ وزیر داخلہ کی طرف سے سرینگر میں کوئی پریس کانفرنس طے نہیں ہے، تاہم انھیں یہاں بی جے پی کے مقامی کارکنوں سے خطاب کرنا ہے۔ سب کی نظریں اسی خطاب پر ہوں گی۔

آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ نئی دلی اور اسلام آباد میں کسی نہ کسی سطح پر افہام و تفہیم کی باتیں ہورہی ہیں تاہم کشمیرکے زمینی حالات اس قدر غیریقینیت کا شکار ہیں کہ کچھ بھی وثوق کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp