آل پارٹیز کانفرنس: اپوزیشن کے اجلاس میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کوئی متفقہ فیصلے ہو سکیں گے؟


اے پی سی

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے غفور حیدری اے پی سی میں شرکت کر رہے ہیں

کیا مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں منعقد ہونے والی حزبِ مخالفت کی آل پارٹیز کانفرنس میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کر پائے گی؟

اس وقت یہی سوال سیاسی مبصرین اور عام شہریوں کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے۔

نامہ نگار سحر بلوچ کے مطابق بدھ کو اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹی کانفرنس کا آغاز ہو چکا ہے اور اب تک پاکستان پیپلز پارٹی کے رضا ربانی، یوسف رضا گیلانی، شیری رحمان، فرحت اللہ بابر، قمر زمان کائرہ، مسلم لیگ (ن) کی طرف سے مریم نواز اور شہباز شریف، آفتاب شیر پاؤ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر شرکت کے لیے پہنچ چکے ہیں۔

اس کانفرنس میں حکومت کے خلاف تحریک اور احتجاج کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا ایجنڈا میں شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیے

مریم نواز اور بلاول حکومت مخالف تحریک پر متفق

کسی کے خلاف نہیں پاکستان کے حق میں جمع ہوئے: بلاول

کیا حزبِ اختلاف کے لیے حکومت مخالف تحریک کا یہ موزوں وقت ہے؟

’دیسی دماغ ولیمے کی فوٹو سے زیادہ سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا‘

یوسف رضا گیلانی، فرحت اللہ بابر

پیپلز پارٹی کے سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور فرحت اللہ بابر بھی اے پی سی میں شرکت لے لیے آئے ہیں

دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر اختر مینگل نے مولانا فضل الرحمان کے بیٹے اسد محمود کو ایک خط بھیجا ہے جس میں انھوں نے اے پی سی کا حصہ بننے سے معذرت کی، جبکہ جماعتِ اسلامی نے بھی اس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

اسفند یار ولی

عوامی نیشنل پارٹی کے اسفندیار ولی

واضح رہے کہ مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک پر متفق ہوئی تھی جس کے بعد تمام اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

اس بات کا فیصلہ 16 جون کو رائے ونڈ میں بلاول بھٹو کے اعزاز میں مریم نواز کی جانب سے دیے گئے ظہرانے کے موقعے پر کیا گیا تھا۔

دونوں رہنماؤں نے اپوزیشن قائدین پر الزامات کو عوام کو سیاسی قیادت سے محروم کرنے کی سازش کا حصہ قرار دیا تھا۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو کی ملاقات کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ ‘مقبول سیاسی رہنماؤں کو بہانوں سے راستے سے ہٹایا گیا، کٹھ پتلی کو بٹھایا گیا۔’

اس ملاقات کے بعد مسلم لیگ ن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق ملاقات میں پاکستان کے سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان سنہ 2006 میں طے پانے والے میثاق جمہوریت کو ایک اہم دستاویز قرار دیتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے اسے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نیا لائحہ عمل بنانے پر غور کیا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل رمضان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور مریم نواز کی ملاقات اسلام آباد میں زرداری ہاؤس میں ہوئی تھی جس میں پاکستان میں حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے دی گئی افطار دعوت میں شرکت کی تھی۔

اس ملاقات کے بعد تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے مشترکہ نیوز کانفرنس کی جس میں بتایا گیا کہ ملاقات کا مقصد پاکستانی عوام کو درپیش مشکلات پر غور و فکر کرنا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp