سول سوسائٹی، موم بتی مافیا اور دیسی لبرل کسے کہتے ہیں؟


اپنے ایک حالیہ دورہ کراچی کے دوران میں راقم کو سول سوسائٹی یا سماج کے بارے میں ایک نجی یونیورسٹی کے طلبا و طالبات سے گفتگو کا موقع ملا۔ سول سوسائٹی کی عملی تعریف دینے کے بجائے مناسب سمجھا کہ کچھ سوالات اٹھائے جائیں جن کے جواب مل کر ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے یعنی طلبا و طالبات سے پوچھا جائے کہ وہ سول سوسائٹی یا سماج سے کیا مطلب لیتے ہیں۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ایک طالبہ نے جوابی سوال داغ دیا کہ کیا کوئی غیر سول سوسائٹی بھی ممکن ہے۔ اس طالبہ کا کہنا تھا کہ سوسائٹی، سماج یا معاشرہ سول یا غیر سول نہیں ہوتا کیونکہ یہ متعلقہ یا اضافی اصطلاحات ہیں جن کا انحصار سیاق و سباق یا  Context  پر ہوتا ہے۔

مگر دیگر طلبا و طالبات نے اس بات کو زیادہ پسند نہیں کیا کیونکہ زیادہ تر شرکا کا خیال تھا کہ ہر سماج میں سول اورغیرسول عناصر موجود ہوتے ہیں جو ایک طرح کے تسلسل یا قوسِ قزح سے جڑے ہوتے ہیں۔ اگراس تسلسل کے ایک کنارے یعنی بائیں کنارے پر سول سوسائٹی ہے تو دائیں بازو پر غیر سول سوسائٹی ہے۔ اس کا مطلب تھا کہ سماج میں بائیں بازو کے عناصر سول ہیں اور دائیں بازو کے عناصر غیر سول ہیں۔ اس بات کو بھی گفتگو کے شرکا میں زیادہ پذیرائی نہیں ملی چونکہ کئی شرکا کا خیال تھا کہ دائیں بازو کے لوگ بھی سول سوسائٹی کا حصہ سمجھے جاسکتے ہیں۔

ایک طالب علم کو دائیں بازو اور بائیں بازو کی اصطلاحات کا فرق معلوم تھا اور اس نے یوں وضاحت کی۔ بایاں بازو ایک متحرک اور سماجی طور پر لبرل سوچ کا نام ہے جب کہ دایاں بازو ایک جامد اور اسٹیٹس کو (Stuatus Quo) یعنی حالات کو جوں کا توں رکھنے کا نام ہے۔

 اس طرح سول سوسائٹی لبرل اور ترقی پسند ہے جو کہ معاشرے کے سماجی و معاشی حالات میں اصلاحات لانا چاہتی ہے جبکہ دایاں بازو غیر لبرل اور رجعت پسند ہوتا ہے۔ اگر سول سوسائٹی ، سائنس اور ٹیکنالوجی پر انحصار کرنا چاہتی ہے تو اس کا مقابل دھڑا ٹیکنالوجی کو استعمال تو کرسکتا ہے مگر سائنسی سوچ اور رویوں کے خلاف ہوتا ہے۔ آپ بے شک انہیں غیر سول نہ کہیں مگر وہ سوسائٹی کو ”موم بتی مافیا“ یا ”دیسی لبرل“ حتیٰ کہ ”لبرل فاشسٹ“ بھی کہنے سے دریغ نہیں کرتے۔

 گفت گو کے دوران میں ایک اور فرق یہ ابھر کر سامنے آیا ہے کہ اصلاح پسندی اور احیا پسندی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔  اصلاح پسند (REFORMIST)  لوگ سماجی اصلاحات کے ذریعے تبدیلی چاہتے ہیں جبکہ احیا پسندی یا  (RIVIVALIST)  پرانی باتوں، خیالات، نظریات اور رسم و رواج کا احیا یعنی زندہ کرنا چاہتے ہیں۔

 مثال کے طور پر سرسید احمد خان یقیناً ایک اصلاح پسند تھے جو سماجی، معاشی، مذہبی اور دیگر امور میں اصلاح کرکے مسلمانوں کی سوچ بدلنا چاہتے تھے جس طرح ان سے قبل راجہ رام موہن رائے نے ہندوﺅں کے ساتھ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگر سرسید احمد خان اور رام موہن رائے کو ہندوستان میں سول سوسائٹی کے اولین علم بردار کہا جاسکتا ہے تو ان کے مقابل دایاں بازو بھی پیچھے نہیں تھا۔

جب رام موہن رائے نے آریا سماج کی بنیاد ڈالی احیا پرست برہمو سماج بھی وجود میں آگیا۔ اس طرح مسلمانوں میں احیا پرست زیادہ تھے اور اصلاح پسند کم۔ احیا پرست وہ تھے جو پرانی روایات کو زندہ کرنا اور حتیٰ کہ خلافت تک قائم کرنا چاہتے تھے۔ جیسا کہ سید احمد شہید بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید کرنا چاہتے تھے جو بالا کوٹ کے نزدیک انگریزوں سے نہیں بلکہ سکھوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ اسی طرح ایک طویل فہرست ایسے علما کی ہے جنہوں نے مدرسے بنائے۔ مثلاً دیو بند، دارالمصنفین اور ندوة العلماءمیں بڑے لکھنے والے تھے جو پرانی روایات و خلافت کو زندہ کرنا چاہتے تھے۔ پھر سیرت و سوانح لکھنے والے بھی تھے۔ مثلاً مولانا شبلی نعمانی جو خود بڑے احیا پرست تھے اور الفاروق اور المامون جیسی کتابیں لکھ چکے تھے۔

قیام پاکستان کے بعد اسلامی رہنما مثلاً مولانا شبیر احمد عثمانی و مولانا سلمان ندوی، مولانا مودودی اور مولانا ظفر عثمانی وغیرہ ایک مضبوط احیا پسند طبقے کی نمائندگی کرتے تھے جو یقینی طور پر دائیں بازو کا تھا۔

 ان کے مقابلے میں سول یا بائیں بازو کا ترقی پسند سماج تقریباً ناپید تھا۔ جو بھی چھوٹی موٹی سول سوسائٹی انجمن ترقی پسند مصنفین وغیرہ کی شکل میں موجود تھی اسے خود ریاست نے کچل دیا۔ مثلاً پروگریسو پیپرز لمیٹڈ (PPL) جس کے مالک میاں افتخار الدین تھے پاکستان ٹائمز، امروز، لیل ونہار جیسے ترقی پسند اخبارات و رسائل چلا رہے تھے۔ مگر انہیں جنرل ایوب خان نے مارشل لگا کر ضبط کرلیا۔ تقریباً چار عشروں کے ریاستی جبر کے بعد 1980 کے عشرے کے اواخر میں ایک نئی سول سوسائٹی ابھرنا شروع ہوئی جس کی نمائندگی غیر سرکاری تنظیمیں کررہی تھیں جو خدمات کی فراہمی یا سروس ڈیلیوری اور ایڈووکیسی یا رائے عامہ ہموار کرنے اور عوامی شعور بیدا کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔

 یہ تنظیمیں اسی طرح کام کرتی تھیں جس طرح غیر منافع جاتی تنظیمیں  (NPOs)  امریکا اور یورپ وغیرہ میں کام کررہی تھیں۔ ان تنظیموں کو سماج کے دائیں اور بائیں بازو دونوں سے مخالفت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا جو ان کے پیچھے سامراجی ہاتھ دیکھ رہی تھیں۔ بائیں بازو نے ان غیر سرکاری تنظیموں پر الزام لگایا کہ وہ سماج کو غیر سیاسی بنا رہی ہیں جبکہ دایاں بازو انہیں اسلام دشمن، مغرب نواز ایجنڈے پر سرگرم گردانتا تھا۔

جلد ہی دائیں بازو کی تنظیموں نے بھی خود کو غیر سرکاری تنظیموں کے طور پر درج کرانا شروع کردیا۔ وہی عناصر جو NGO,s  کو برا بھلا کہتے تھے اور انہیں بیرونی جاسوس قرار دیتے تھے وہی اب اس نئے غیر سرکاری منبر سے اپنے احیا پرست نصب العین کا پرچار کرنے لگے۔ اور دائیں بازو کی سیاست بھی چمکنے لگی گوکہ اس کے لیے بھی غیر ملکی رقوم کئی دوست ممالک سے آنے لگیں۔

 اکیسویں صدی کے آتے آتے غیر سرکاری تنظیموں کی اصطلاح کی جگہ سول سوسائٹی تنظیموں نے لے لی۔ گزشتہ بیس برس میں سول سوسائٹی تنظیموں نے ایک جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کے حامی نصب العین پر کام کیا ہے۔ خواتین کے حقوق اور اختیارات کے لیے ان کی جدوجہد نے سماج میں دائیں بازو کے عناصر کو ناراض کیا ہے۔

 سول سوسائٹی یا سماج کو ان مسائل سے دلچسپی نہیں جو دائیں بازو کے عناصر کے مسائل ہیں۔ مثلاً سول سوسائٹی کو اس سے سروکار نہیں کہ آپ چاند دور بین سے دیکھتے ہیں یا بغیر دور بین کے۔ نہ ہی سول سوسائٹی کا یہ مسئلہ ہے کہ آپ کی شلوار کے پائنچے ٹخنے کے نیچے لٹک رہے ہیں یا اوپر۔

سول سوسائٹی کا مسئلہ یہ ہے عوام کے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں مفت اور اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کی جائے۔ اس کا یہ بھی مسئلہ ہے کہ عوام کو صحت کی اعلیٰ سہولتیں مفت دستیاب ہوں۔ سول سوسائٹی عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔

جب کہ احیا پرست اور دائیں بازو کے گروہ مدرسے بنانے میں مصروف ہوں تو سوسائٹی آس پاس ابلتے گٹروں اور گندے پانی کے جوہڑوں سے پریشان ہوتی ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے

سول سوسائٹی کا مسئلہ ماحولیاتی تحفظ اور آلودگی کا خاتمہ بھی ہے۔ اگر سماج میں عدم برداشت بڑھے اورپھیلے تو سول سماج سب کے آگے آکر رواداری کا مطالبہ کرتا ہے اور ایک ایسا معاشرہ تخلیق کرنا چاہتا ہے جہاں سب بلا تفریق رنگ و نسل مذہب اور فرقہ کے مل جل کر رہ سکیں۔

جب انسانی حقوق کا کوئی محافظ نشانہ بنتا ہے یا فرقہ وارانہ جماعتیں معاشرے پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں تو سول سوسائٹی ہی آگے بڑھ کر احتجاج بھی کرتی ہے اورچراغ بھی جلاتی ہے بے شک اسے ”موم بتی“ مافیا کا طعنہ دیا جائے یا ”دیسی لبرل“ کہہ کر مذاق اڑانے کی کوشش کی جائے۔

سول سوسائٹی نئے علوم و فنون کی ترویج کرتی ہے اور محض جگالی کرنے یا گھسی پٹی باتیں یا روایات کو دہرانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلان نامے کے محافظ کے طور پر سول سوسائٹی پدر سری یا مردوں کی بالادستی قبول نہیں کرتی اور نہ ہی عورتوں کو نشانہ بنائے جانے پرخاموش رہتی ہے چاہے وہ روایات کے نام پر ہی کیوں نہ ہو۔

 یہ نفرت انگیز سوچ اور جنگی جنون کی مذمت کرتی ہے بے شک اسے غیر محب وطن ہی کیوں نہ کہا جائے۔ سول سوسائٹی کے نزدیک حب الوطنی کا مطلب ہے کہ عوامی وسائل، عوامی فلاح وبہبود اور تعلیم و ترقی پر خرچ کیے جائیں نہ کہ چند مخصوص لوگوں کی اور افسرشاہی کی فلاح وبہبود کے لیے۔

سول سوسائی بنیادی طور پر سیکولر ہے اورمذہب یا فرقے کو ذاتی معاملہ سمجھتی ہے۔ یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ریاست اور مذہب کو مکس نہ کیا جائے کیونکہ ان کی ملاوٹ سے سماج میں امتیازی سلوک ہوتا ہے۔

سول سوسائٹی عقل کو عقیدے پر فوقیت دیتی ہے اور دلیل اور استدلال کی ترویج کرنا چاہتی ہے نہ کہ تاریکی پسند اور فرقہ وارانہ سوچ کو۔ جلد یا بدیر ہمارے سماج اور اس کے کرتا دھرتا فیصلہ کن طبقوں کو واضح کرنا ہوگا کہ آیا وہ عقل دشمن،غیر منطقی ، جنگجویانہ، فرقہ وارانہ اور غیر سائنسی راستوں پر چلتے رہیں گے یا پھر منطقی، امن پسند، عقل دوست، روشن خیال، سماجی طور پر لبرل اور مذہبی طور پر غیر جانبدار یعنی سیکولر راستوں پر چلیں گے۔

سول سوسائٹی دوسرا راستہ تجویز اور اختیار کرتی ہے اور عقل و استدلال کے دشمنوں سے لڑتی ہے۔ یہ خواتین کو مردوں کے برابر سمجھتی ہے اور خواتین دشمن قوانین اور روایات کو للکارتی ہے بے شک وہ ثقافت یا کلچر کے لبادے میں کیوں نہ ہوں۔

ہماری گفت گو کے اختتام پر طلبا و طالبات نے اپنی معلومات مین بہتری کا اقرار کیا اور جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ کسی سول سوسائٹی کی تنظیم میں شامل ہوں گے تو اکثریت نے مثبت جواب دیا لیکن کسی نے بھی کھڑے ہوکر اعلان نہیں کیا اور نہ یہ ہمارا مقصد تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).