سیکولرازم اسلام کی ضد ہے


\"ahmad_hamidi\"

میں مسلسل ایک عرصے سے سیکولر ازم پر مختلف حضرات کے مضامین پڑھ رہا ہوں۔ جب بھی میں ان کی تحریریں پڑھتا ہوں تو مجھے ان کی بے چینی واضح نظر آتی ہے ۔ یہ حضرات خود تذبذب و خلجان کا شکار ہوں یا نہ ہوں لیکن عوام کو انہوں ضرور بے چین کر رکھا ہے کیونکہ ان کے پاس واضح رستہ بھی نہیں ہے اور عوام کو مشورے دینے کا فرض بھی سر پے اٹھا ئے رکھا ہے۔ کبھی کبھی یہ خیال بھی آتا ہے کہ ان کی بھی غلطی نہیں ہے کیونکہ یہ بیچارے خود بھی حالات سے اتنے مایوس ہو چکے ہیں کہ ان کو بھی کوئی اور پہلو یا نیا رستہ معلوم نہیں پڑتا یا کوئی اور موضوع نہیں ملتا جس کے ذریعے یہ اپنی بھڑاس نکال سکیں۔خیر ! ہر کسی کو اظہارِ خیال کا بھرپور حق حاصل ہونا چاہیے خواہ وہ جس نظام کا بھی حامی ہو کیونکہ یہ انسان کا بنیادی حق ہے۔

سیکولرازم کے حامیان فرماتے ہیں کہ سیکولرازم ہی مسائل کا حل ہے، مذہب کو سیاست یا اجتماعیت سے الگ ہونا چاہیے کیونکہ مذہب کا دائر ہ کار الگ ہے اور سیاسی معاملات کسی اور ڈھنگ سے چلائے جاتے ہیں، اور مسائل کا جڑ مذہب کا اجتماعی معاملات میں مداخلت ہے، ہمیں مولوی کے تسلط سے آزاد ہونا چاہیے اور پھر یہ حضرات مولویوں کی تاریخ و کارنامے بیان کرنے لگتے ہیں اور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ ان مولویوں سے چھٹکارا حاصل کرلو کیونکہ ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔چونکہ عوام کے سامنے دو ٹوک الفاظ میں یوں کہنا مشکل ہوتا ہے اس لیے ان کو اس خالص زہر میں یہ میٹھا بھی ملانا پڑتا ہے کہ دیکھو جی! سیکولرازم کا معنی ہرگز لادینیت نہیں ہے۔ سیکولرازم آپ کو عبادات سے نہیں روکتی۔اور اگر مجھ جیسے کند ذہن کو یہ بات بھی سمجھ نہ آئے تو یہ فرماتے ہیں، دیکھو نا، یورپ نے سیکولرازم کی وجہ سے کتنی ترقی کی اور بھارت سیکولرسسٹم کی وجہ سے ترقی کی راہوں پر گامزن ہے ایک ہم مسلم ممالک والے ہیں یا خصوصا پاکستان والے ہیں جو قراردادِ مقاصد سے چمٹے ہوئے ہیں اور سیکولر نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے اتنے پیچھے رہ گئے ہیں۔اس مکالمے کے دنوں میں اگر کہیں دھماکا ہو جائے پھر تو جی ایک نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔پھر فرماتے ہیں دیکھو اس مذہب کی وجہ سے یہاں امن نہیں ہے۔فرقہ واریت ہے، ایک دوسرے پر کافر کے فتوے ہیں۔دیکھو جی !! کوئی مذہبی بندہ دھماکوں کی مذمت نہیں کرتا، یہی ان کا اصل چہرہ ہے۔یہی ہیں مسائل کے جڑ، یہی ہیں معصوموں کو مارنے والے۔۔۔۔میں اس کے باوجود ان سیکولر حضرات کا ہمدرد ہوں اور ان کی تکلیف محسوس کر سکتا ہوں۔ ان تمام خیالات کے صرف یہی لوگ ذمہ دار نہیں ہیں ۔کیونکہ یہ لوگ دھماکوں کے ستائے ہوئے ہیں اور مولوی کے جبر و استبداد کے شکار ہیں۔

یہ جو کچھ اوپر لکھا ہے یہ ان کے خیالات کا خلاصہ ہے۔ کچھ تو ان کا غصہ بجا ہے اگر یہ فرقہ واریت سے نالاں ہیں تو میرے خیال میں تو فرقہ واریت سے تو کوئی بھی دردِ دل رکھنے والا مذہبی بندہ ایسا نہیں ہوگا جو مطمئن ہو۔ اسی طرح اگر یہ مولوی کی کم علمی و سختی کے خلاف ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے کیونکہ مولوی کا رویہ و طرزِ عمل واقعی قابلِ رنج و افسوس ہے۔ لیکن ان کی جو باتیں میری نظر میں غلط ہیں وہ یہ ہیں کہ’’ مذہب مسائل کا جڑ ہے‘‘۔ اگر صرف پاکستان کی حد تک مطالعہ کیا جائے تو مذہب ہرگز مسائل کا جڑ نہیں ہے بلکہ مذہب سے دوری ہی مسائل کا جڑ ہے۔ کیا پاکستان آج تک ایک اسلامی ملک تھا کہ جس کی وجہ سے یہ مسائل پیدا ہو گئے ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں !بلکہ پاکستان نظام کے لحاظ سے دو ٹکڑوں میں تقسیم ہے۔ یہاں کی عوام اسلام سے محبت کتنی والی ہے لیکن حکمران طبقہ اسلام نا آشنا اور خدا بیزار ہے۔ اس ملک کو تو آج تک مخلوط نظام کے ذریعے چلایا گیا ہے۔ یہ اور بحث ہے کہ پاکستان اسلام کے لیے حاصل کیا گیا تھا یا مسلمانوں کے لیے لیکن کم از کم یہ بات ماننے کو تو ہر بندہ تیار ہو گا کہ پاکستان میں اسلامی نظام ایک ساعت کے لیے بھی نافذ نہیں کیا گیا۔ اس لیے یہ بات کرنے کا تو کسی کو حق ہی نہیں پہنچتا کہ وہ اسلام کو ان مسائل کا جڑ بتائے۔ بلکہ الٹا یہ کہنا چاہیے کہ چونکہ اسلام شروع سے نافذ نہیں کیا گیا اس لیے یہ مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ اگر آج پاکستان ایک اسلامی ملک ہوتا تو کسی کو اسلام کے نام پر یہاں خون خرابہ کرنے کی جرات ہی نہ ہوتی۔ دوسری غیر منطقی بات جو اکثر سیکولر حضرات عوام کو دھوکہ دینے کے لیے کرتے ہیں وہ یہ کہ’’ اسلام لادینیت نہیں ہے ،یہ مولویوں کا کیا گیا ترجمہ ہے‘‘۔ کاش ان کومذہب و دین میں تمیز ہوتی !! اگر ان کو مذہب و دین میں فرق معلوم ہوتا تو یہ بھی سیکولرازم کا ترجمہ لادینیت کرتے۔ مذہب نام ہے پوجا و پرستش کا ، یا یوں کہیئے کے انفرادی اعمال کو مذہب کہا جاتا ہے جبکہ دین کا معنی ہے نظام، سسٹم،تمام اجتماعی و انفرادی معاملات ۔۔ جب سیکولرازم پوجا و پرستش کی اجازت دیتا ہے اور اجتماعی معاملات سے مذہبی قوانین (دین) کو خارج کرتا ہے تو اس کا معنی اس کے علاوہ اور کیا ہوا کہ سیکولرازم دراصل لادینیت ہے ۔

سیکولرازم میں اس کے علاوہ بھی بہت ساری بنیادی باتیں ہیں جن کے ساتھ بھر پور اور مدلل اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایک مضمون میں چونکہ ان تمام باتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیا جاسکتا اس لیے اس پر مزید بات کسی اور موقع پر ہونی چاہیے۔ اگر کسی کو تحقیق کا شوق ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ واقعی ہماری سوسائٹی کو سیکولرازم کی ضرورت ہے تو ان کو چاہیے کہ غیر جانب داری سے مطالعہ کریں ۔

سیکولرازم کوئی ایسا خیال نہیں ہے جو آج اچانک کسی کالم نگار کے ذہن میں آیا ہو بلکہ یہ ایک قدیم سوچ ہے اور بہت سارے معاشروں نے اس کو اپنا کرتجربے کیے ہیں ہمارے تحقیق کاروں کو چاہیے کہ ان معاشروں کا مطالعہ کریں اور بتائیں کہ ان معاشروں کا کیا حال ہوا ہے۔ یہ ذمہ داری محققین کی ہے اور محققین میں یہ اوصاف ہونی چاہیے کہ وہ کسی کے فکری غلام نہ ہوں، وہ کسی چیز کو بھی صرف ایک زاویے سے نہ دیکھیں یا وہ متاثرہ ذہنیت سے تحقیق نہ کریں۔ اگر یہ لوگ اسی انداز سے سیکولرازم کے تجربہ گاہوں، خصوصاََ ویسٹ کا مطالعہ کریں تو مجھے یقین ہے کہ یہ سخت پریشانی کا شکار ہو جائیں گے۔

تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

علامہ اقبال


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments