اے پی سی میں اختلافی لمحات کی اندرونی کہانی: ہم سب خصوصی تجزیہ سیل


باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کے آخری حصے میں متعدد اختلافی نکات سامنے آئے۔ اے پی سی کے کنوینر مولانا فضل الرحمان نے تجویز دی کہ اپوزیشن پارٹیز کو تمام اسمبلیوں اور سینیٹ سے استعفے دے کر پارلیمنٹ کو غیر موثر کر دینا چاہیے۔ مولانا نے مزید کہا کہ اگر اس کے نتیجے میں مارشل لا بھی لگتا ہے تو اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

اس پر پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو نے فوری ردعمل دیا اور کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ حکومت گرانا کوئی مسئلہ نہیں لیکن میری شہید ماں نے مجھے یہی سکھایا تھا کہ حکومت اور پارلیمنٹ دو الگ چیزیں ہیں۔

بلاول بھٹو کے اس ردعمل پر اجلاس کے شرکا سکتے میں آ گئے۔ تاہم رضا ربانی نے مولانا فضل الرحمان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ اس اجلاس کے کنوینر ہیں۔ آپ کا منصب اپنا ایجنڈا پیش کرنا نہیں بلکہ شریک سیاسی جماعتوں میں پل کا کردار ادا کرنا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اس اجلاس کے شرکا مجھ سے بڑے ہیں، انہوں نے آمریتوں کا مقابلہ کر رکھا ہے، میں ان کا احترام کرتا ہوں۔ لیکن میں پارلیمنٹ کو گرانے کی تجویز تسلیم نہیں کر سکتا۔ اگر اس نکتے پر اختلاف قائم رہتا ہے تو آپ اپنی جماعتوں کی سیاست کیجیے میں پیپلز پارٹی کی سیاست کروں گا۔ اس موقع پر مسلم لیگ نواز کے ارکان خاموش رہے۔ تاہم اے پی سی کا موڈ سمجھتے ہوئے مولانا نے اپنی تجویز واپس لے لی۔

آل پارٹیز کانفرنس کے آخری مرحلے میں یہ تجویز سامنے آئی کہ وزیراعظم عمران خان کی حالیہ ٹیلی ویژن تقریر میں مذہبی حوالے سے متنازع کلمات کو حکومت مخالف احتجاج کا مرکزی نقطہ بنایا جائے۔ بلاول بھٹو نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم مذہب کا ہتھیار استعمال نہیں کرتے۔ مولانا فضل الرحمان نے اس کے جواب میں کہا کہ ہم جمہوریت استعمال کرتے ہیں۔ اجلاس کے شرکا کا عمومی تاثر یہ تھا کہ اردو زبان کے استعمال میں دقت کی وجہ سے بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان ایک دوسرے کی بات سمجھ نہیں پائے۔

اس موقع پر قمر زمان کائرہ صاحب نے جمیعت علمائے اسلام کے ارکان سے کہا کہ آپ کا موقف تو تحریک لبیک جیسا ہے۔ کائرہ کے اس جملے پر مولانا عبدالغفور حیدری بھڑک اٹھے اور انہوں نے کہا کہ آپ نے ہمیں تحریک لبیک سے ملا کر ہمارے جذبات مجروح کیے ہیں۔ اس پر قمر زمان کائرہ نے معذرت کرتے ہوئے اپنے الفاظ واپس لے لئے۔

اے این پی کے سیکرٹری اطلاعات زاہد خان نے اس بحث کو سمیٹنے کی کوشش کی اور ایک مصالحانہ جملہ مشترکہ اعلامیے میں شامل کروانا چاہا۔ زاہد خان نے کہا کہ ہمیں اپوزیشن جماعتوں میں اختلاف کا تاثر دے کر مخالفین کو خوش ہونے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ اگرچہ اس پر عمومی اتفاق تھا لیکن مولانا فضل الرحمان نے اصرار کیا کہ اے پی سی کی طرف سے ان معاملات پر تشویش کی بجائے بھرپور تشویش کی اصطلاح استعمال کی جائے۔ مولانا کی یہ تجویز تسلیم کر لی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).