اقلیت کا تصور، لبرلز اور عمومی رویے


گزشتہ دنوں بھارتی ریاست جھاڑکھنڈ میں اک موٹر سائیکل سوار نوجوان کو چند لوگوں نے روکنے کی کوشش کی۔ لوگوں کا گروہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتا تھا اور نوجوان کی شباہت اک مسلمان نوجوان کی تھی، نوجوان نے مصلحت یا خوف کے سبب موٹر سائیکل روک کر اس گروہ کی بات سننا مناسب نہ سمجھا تو ہجوم نے بھاگ کر موٹر سائیکل کو زمین پر گراتے ہوئے نوجوان سے اس کا نام پوچھنے کی ضد کی اور مار پیٹ شروع کر دی یہ مار پیٹ اٹھارہ گھنٹوں تک جاری رہی۔

نوجوان کا نام تبریز انصاری تھا، اکثریت کا حکم نہ ماننے کی پاداش میں ہجوم نے تبریز انصاری کو مار مار کر ہلاک کر دیا، معاملہ جب قانون نافذ کرنے والے اداروں تلک پہنچا تو ہجوم نے معاملے کو چوری اور ڈکیتی کا رنگ دے کر بچنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ۔ ”یہ موٹر سائیکل چوری کی تھی اس لئے ہم نے چور کو پکڑنے کی کوشش کی“۔ دوسری طرف سے شدید مزاحمت پر ہجوم مشتعل ہوگیا جس کی وجہ سے نوجوان کی موت واقع ہوئی۔ تفتیش کرنے پر یہ ثابت ہوا کہ موٹر سائیکل چوری کی نہیں بلکہ تبریز نامی نوجوان کی اپنی تھی اوراسکا جرم اک متشدد ہندو گروہ کے سامنے اقلیت ہونا تھا۔

یہ ایک خبر تھی، نیچے سوشل میڈیا پر پھیل رہی عوامی رائے درج ہے۔

انڈیا میں اقلیتوں پر بے انتہا ظلم کے واقعات روزانہ کی بنیاد پر ملتے ہیں۔ جب سے پاکستان کے سیکولرز و لبرلز نے ”ہندو مت“ قبول کیا ہے ہمارے شدھ دیسی لبرلز و سیکولرز کی سٹی گم ہو چکی ہے اور انہیں یہ بات سمجھ ہی نہیں آرہی کہ بھارت میں اقلیتوں پر بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی مذمت کریں بھی تو کیسے کریں کیونکہ انہیں صرف ہندو، سکھ، عیسائی، احمدی و دیگر اقلیتوں پر ہو رہے ظلم کی ہی مذمت کرنا آتی ہے۔ ان کی لغت میں اک مسلمان کے لئے مظلوم کا لفظ وجود نہیں رکھتا۔

پاکستان کے سیکولر اور لبرلز وہ لوگ ہیں جو بات بات پر اپنے ”ہنو مان“ کو بیچ میں لے آتے ہیں، پاکستان میں ہندووں کے دفاع میں ہر حد پار کر جاتے ہیں، ان کے نظریات اتنے یک طرفہ ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی مسلمان پر ظلم ہو، ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی لیکن جیسے ہی پاکستان میں اقلیتوں پر ذرا سی بات آئے یہ آہ و بکا کرتے ہوئے اپنی بلوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پاکستانی لبرلز و سیکولرز کے اصول اتنے یک طرفہ ہیں کہ انسانیت بھی شرما جائے۔ ان کے اصول، انسانیت کی باتیں اور اقدار سکڑتے سکڑتے غائب ہو چکی ہیں اور ان کی نظر میں مظلومیت کا استعارہ اور امیدوں کا مرکزصرف ”مشعال خان“ کی لاش ہی رہ گئی ہے۔

راقم کی رائے درج ذیل ہے

ایسے واقعیات کہیں بھی ہوں شدت سے قابل مذمت ہیں، مظلوم صرف اور صرف مظلوم ہوتا ہے اس کا کوئی دین، فرقہ یا شناخت نہیں ہوتی۔ لاش چاہے ہندو کی گرے، مسلم کی گرے، سکھ کی گرے یا احمدی کی گرے اس کی نسوں میں سے خون ہی نکلے گا۔ اپنی قبیل کا قتل ہو یا دوسری قبیل کا کسی بھی انسان کے مرنے پر یتیم بچے ہی ہوتے ہیں، بیوہ ان کی بیویاں ہی ہوتی ہیں اور بے سہارا ان کے والدین اور چھوٹے بہن بھائی ہی ہوتے ہیں۔ کسی بھی انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایسا ہر عمل چاہے وہ انفرادی ہو، اجتماعی ہو یا ریاستی ہو وہ ناقابل برداشت ہے اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ شدت پسندی وہ عفریت ہے جو کسی بھی گھر میں صف ماتم بچھا جاتی ہے۔

یہ بلا اس حسین دنیا سے اک خوبصورت انسان کم کر جاتی ہے۔ بلاشبہ ہندو پاک میں اکثریت شدت پسندی کی حامل ہے، دونوں ہی ملک مذہب کے نام پر بنے ہیں اور دونوں ممالک میں مذہبی شدت پسندی اپنی انتہاوں پر موجود ہے۔ اگر ہندوستان میں ہندوتوا کا نعرہ موجود ہے تو پاکستان کے ہر گلی کوچے میں کافر کافر جیسے نعرے کی کان پھاڑ دینے والی گونج ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے پاتی۔ دونوں صورتوں میں ہر روز لاشیں گرتی ہیں اور کوئی روکنے والا نہیں ہے۔

ایسے واقعیات کی روک تھام کے لئے سول سوسائٹی اور ہر درد دل رکھنے والے انسان کو آگے آکر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ اگر یہ سب ایسے ہی چلتا رہا تو یہ دنیا اک مقتل کے سوا کچھ نہ رہی جائے گی۔ کسی بھی انسان کو ہرگز ہرگز یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کسی دوسرے انسان کو اس کے رنگ، شکل و صورت، نظریے، عقیدے، مذہب یا شناخت کے نام پر، اس سے اختلاف ہونے کی صورت میں مار ڈالے۔ ایسا عمل کرنے والے نہ تو ہندو ہو سکتے ہیں، نہ مسلمان ہو سکتے ہیں اور نہ عیسائی ہو سکتے ہیں کیونکہ جانوروں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، خون آشام بلائیں نظریہ یا عقیدہ نہیں رکھتیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اک اور رویے کی طرف بھی دیکھنا ہوگا، پاکستان میں جب بھی کسی پر ظلم ہو، لاشیں گریں، مذہب یا حب الوطنی کے نام پر کسی کو مار دیا جائے، فرقہ وارانہ فسادات میں کشت و خون کی نہریں بہیں تب پوری قوم کئی دھڑوں میں بٹ جاتی ہے۔ وطن عزیز میں شہادت کے پیمانے الگ الگ ہیں، یہاں کلین شیو کے لئے شہید کا مطلب اور ہے تو داڑھی والے کے لئے اور ہے، یہاں سویلن کے لئے شہید کچھ اور معانی رکھتا ہے تو وردی والے کے لئے یکسر الگ تعریف کا حامل ہے۔

یہاں فرقوں تک میں شہدا کا تصور جداگانہ ہے، سنی مر جائے تو وہابی خوش، وہابی مر جائے تو سنی خوش، یہاں اہل تشیع مرے تو باقی تمام ”مسلمان“ اوپر اوپر سے پرسا دیتے ہیں مگر اندر سے بھنگڑے ڈال رہے ہوتے ہیں۔ یہاں نظریات تک خالص نہیں ہیں۔ مسلمان مرے تو لبرل و ملحدین جشن مناتے ہیں، کوئی روشن خیال، لبرل، سیکولر، ملحد، ہندو، سکھ، عیسائی، احمدی یا کسی اور اقلیت کا فرد مار دیا جائے تو مسلمان شادیانے بجانے میں مگن ہو جاتے ہیں۔

بلا شبہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کوئی بھی شدت پسند مذہبی دھڑا خود سے اختلاف رکھنے والے کو قتل کرنا واجب بلکہ ثواب مانتا ہے۔ ہندوستان ہو یا پاکستان سب ایک جیسے نظریات، عقاید، شدت جذبات اور انتقامی رویوں کے حامل ہیں۔ جب جب کوئی سانحہ ہو ہم یا تو اس کی توجیح پیش کرنا شروع ہوجاتے ہیں یا جو توجیح پیش کرنے سے قاصر ہو اس کو رگڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس واقعہ میں بھی عمومی طور پر بجائے سیدھی طرح سے مذمت کرنے، مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے اور احتجاج کرنے کے لبرلز کو گھسیٹ لیا گیا، میرا ماننا ہے کہ ہندو و پاک میں ننانوے فیصد ہجوم چاہے لبرل ہو یا مذہبی ہو، شدید دونمبر، دوغلے معیارات کے حامل اور منافق سے بھرپور ہیں مگر بات کچھ اصول کی بھی ہوتی ہے۔

پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، یہاں پر موجود لبرلز ہوں یا سیکولر، وہ مسلمان گھرانوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں، وہ اکثریتی مسلمان معاشرے کے فرد ہیں، اس ملک کا حصہ ہیں، وہ اپنے اردگرد اقلیت پر ہونے والے ظلم پر بولنے کا حق رکھتے ہیں کیونکہ اقلیتی فرد کے مرنے پر اکثریت خاموش تماشائی بنی ہوتی ہے، تب یہ چند لبرلز و سیکولز ہی ہوتے ہیں جو کمزور کے ساتھ کھڑا ہونا فرض مان لیتے ہیں۔ یہ ان کا گھر ہے، احتجاج ہو، سدھار کی کوشش ہو یا گندگی صاف کرنا ہو انسان اپنے گھر سے ہی شروع کرتا ہے نہ کہ پڑوس کے معاملات میں دخل اندازی کرنا شروع کر دے۔

ہندوستان میں بھی سینکڑوں ایسے لبرلز موجود ہیں جو سکھ، عیسائی، پارسی یا ہندو مذہب کا پس منظر رکھتے ہیں لیکن وہ کشمیر کے مسلمانوں کے حق میں بولتے ہیں، وہ مقدس گائے کے نام پر بنے قانون کی مخالفت کرتے ہیں، وہ دیگر ریاستوں میں جاری ریاستی جبر کے خلاف سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ وہاں کے لبرلز بھی ہمارے ڈھائی عدد لبرلز کی طرح جیل یاترا کرتے ہیں، ڈنڈے کھاتے ہیں، گولیاں سینوں پر سجاتے ہیں۔ تو کیا جو غیر مسلم لبرل، ہندوستان میں اقلیتوں کے لئے ڈنڈے، گولیاں اور گالیاں کھاتے ہیں ان کو رحمان کا پجاری کہا جائے؟ کیا ان کو ہندوستان سے نکل جانے پر مجبور کر دیا جائے؟ کیا ان کو کہا جائے کہ تم ہندو کے مرنے پر خاموش ہوتے ہو لیکن دیگر اقلیتوں پر بات آئے تو بلوں سے باہر نکل آتے ہو اس لئے قابل نفرت ہو؟ قابل تضحیک ہو؟

یہاں ضرورت مسلم، ہندو، اقلیت یا اکثریت سے زیادہ اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنے کی ہے۔ ہندوتوا بھی اک شدید مذہبی شدت پسند نظریہ ہے، جیسا کہ پاکستان میں داعش، طالبان اور لشکر شدت پسند نظریہ رکھتے ہیں۔ اپنے ملک کی اقلیتوں کے حق میں بولنے کا مقصد اپنے گھر کی دیکھ بھال کرنا ہوتا ہے، اپنے گھر کو بچانا ہوتا ہے، اپنے گھر سے جبر اور ظلم کو ختم کرنے کی کوشش ہوتی ہے نہ کہ رحمان یا ہنومان کا نام لیوا کہلوانے کی کوشش۔

کیونکہ اپنے ملک میں احتجاج کرنے پر ہی عوام، ادارے اور ریاست بات سننے پر مجبور ہوتی ہے، سیکورٹی دینے پر مجبور ہوتی ہے اور جبری شادیوں پر ایکشن لینے پر مجبور ہوتی ہے۔ عوام احتجاج کر کے اپنے ملک کے اداروں اور ریاست کو مجبور کر سکتے ہیں، پڑوسی ملک کو مجبور کرنا ان کی عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے کیونکہ ہندوستان کی حکومتیں پاکستانی ووٹوں سے اقتدار میں نہیں آتیں، بالکل جس طرح پاکستان کی حکومتیں ہندوستانی ووٹوں سے آگے نہیں آئی ہوتیں۔

باقی چاہے ملا ہو، لبرل ہو یا ملحد ہو، مٹھی بھر پیڈ افراد کہ جن کو مسجد، مدرسے یا یورپ سے بھیک ملتی ہے ان کو چھوڑ کر جو بھی ظلم کی مذمت نہ کرے وہ شدت پسند ہے۔ اقلیت کسی بھی معاشرے میں اکثریت کے ہونے کا ثبوت ہوتی ہے، اقلیت کسی بھی معاشرے کے مثبت رویوں کا حسن ہوتی ہے۔ اگر اسے ثبوت اور حسن رہنے دیا جائے تو۔ لاش گرانے والا کہیں کا بھی ہو، کوئی بھی ہو مردہ باد۔ انسانیت زندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).