مالٹے کا جوس اور کچرے کا پہاڑ


یہ کم وبیش بیس سال پرانی بات ہے۔ لاطینی امریکہ کے ملک کوسٹاریکا میں جوس بنانی والی ایک کمپنی ”ڈیل اورو( Del Oro)’’  کو اک مسئلہ درپیش تھا۔ مسئلہ مالٹے (کینو) کا جوس نکالنے کے بعد اس کی باقیات کو ٹھکانے لگانے کا تھا۔ باقیات یا کچرا جس میں مالٹے کا گودا، اس کا بیج اور اس کا چھلکا شامل تھا۔ میٹنگز ہوئیں اور مختلف تجاویز آئیں۔ اک تجویز مہنگا پروسیسنگ پلانٹ لگانے کی بھی تھی۔ اسی دوران پینسلوانیا یونیورسٹی کے دو ماحولیاتی ماہرین ان کے پاس آئے اور اک مختلف تجویز پیش کی۔

اگر کمپنی یہ باقیات کسی جنگل کے پاس بے کار، بے آباد زمین میں ڈمپ کر دے تو یہ اس زمین کی آباد کاری کے لیے زیادہ موزوں، زیادہ بہتر ہو گا۔ کمپنی کو یہ تجویز پسند آئی اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ کہانی کو مختصر کرتے ہیں۔ پندرہ سال کے مختصر عرصہ میں اس عمل نے جادوئی اثر کیا اور جہاں مالٹے کی باقیات کو ڈمپ کیا تھا وہاں اک نیا جنگل آگ آیا۔ بدلا ہوا منظر نکلا، بیاباں کے قدموں سے جنگل نکلا۔

اکثر پھولوں پھلوں کی باقیات خاص طور پہ مالٹے کی باقیات میں فاسفورس، نائٹریٹ، اور پوٹاشیم کی کافی مقدار ہوتی ہے جو قدرتی کھاد کا کام کرتی ہے۔ یہ جنگل دوسرے قدرتی جنگل سے کافی حد تک مختلف تھا، اس میں پودوں کی اقسام کافی زیادہ اور ان پودوں کی حالت بہت بہتر تھی۔

شب گزشتہ علم و ادب والے محترم شخص حماد رضا صاحب سے بات ہوئی۔ موضوع سخن تھا ماحولیاتی تبدیلیاں اور گلوبل وارمنگ۔ محترم حماد رضا صاحب نے خاصی رہنمائی کی مختلف کتب اور ان رہنماؤں کے حوالے دیے جنہیں اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہے۔

دنیا بھر کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہیں جن میں جنگلات مطلوبہ تعداد سے انتہائی کم ہیں اور اس کمی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ہوا ناقص ہوتی جا رہی ہے۔ سانس لینے سے جڑے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ نئے درخت اگائے نہیں جا رہے اور پرانے درختوں کا قتل عام تیزی سے جاری ہے۔ روز کٹ کے گرتا ہے اک سائباں، روز پاؤں سے زمیں سرک جاتی ہے۔ اچھی خاصی زرعی زمینوں کا ستیاناس کر کے برساتی کھمبیوں کی طرح دن رات ہاؤسنگ سوسائیٹیاں اگائی جا رہی ہیں۔ کسی زمانے میں دیہاتوں میں نہریں اور ندی نالے ہوتے تھے جن کے گرد درختوں اور پھولوں کی قطاریں ہوتی تھیں۔ پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار۔ اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن۔

مفقود ہوئے وہ ندی نالے اب وہاں نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی قطاریں ہیں۔ افسوس اب کوئی مجید امجد بھی نہیں جو کٹتے ہوئے درختوں کا نوحہ لکھے۔

بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار

جھومتے کھیتوں کی سرحد پر، بانکے پہرے دار

گھنے، سہانے، چھاؤں چھڑکتے، بُور لدے چھتنار

بیس ہزار میں بِک گئے سارے ہرے بھرے اشجار

شجر کاری اور نئے جنگلات اگانے کا ایجنڈا ہر سیاسی جماعت کے منشور کا حصہ ہونا چاہیے۔ اور حکومت کو اس کام کے لیے عملی انتظام کرنے چاہیے۔ لیکن جو بھی آیا اک نیا زخم لگا کر لوٹا۔ جانے والی جماعتوں کو تو اپنے اللّے تللّوں سے فرصت نہ تھی۔ ہاں تحریک انصاف نے بلین ٹری نامی منصوبہ ضرور شروع کیا۔

جیسا کے اوپر کوسٹاریکا کا ذکر کیا کہ کیسے مالٹے کے جوس کی باقیات کی مدد سے جنگل اگ آیا۔ پاکستان میں صرف کراچی میں جوس بنانے والی سینکڑوں فیکٹریاں اور دکانیں ہیں۔ جن کا کچرا اک تو شہر میں نکاسی آب کے مسائل پیدا کرتا ہے دوسرا شہر میں تعفن اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے کراچی کو بری طرح آلودگی کا سامنا ہے جن میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر بھی شامل ہیں۔ اگر ترقی معکوس کا یہی عالم رہا تو آنے والے وقتوں میں کراچی کا شمار گندے ترین شہروں میں ہونے لگے گا۔

اگر کوئی صاحب اقتدار یا ارباب اختیار میں سے پہل کرے اور صرف کراچی میں سے جوس بنانے والی دکانوں اور فیکٹریوں سے پھلوں کی باقیات لے کر زیریں سندھ یا کچے کے علاقے یا سندھ کی بے کار زمینوں کے پاس ڈمپ کیا جائے تو کم وبیش پندرہ برسوں میں حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ کام مشکل تو ہو سکتا ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اگر ہے جذبہ تعمیر زندہ تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے۔ سول سوسائیٹی، رضاکار تنظیمیں اور سکولوں کالجوں کے طالب علم آگے بڑھیں تو اپنی مدد آپ کے تحت اس کار خیر کو بخوبی سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر حالات سنگین سے سنگین تر ہوتے جائیں گے۔ اور ہم اپنی اگلی نسلوں کو وراثت میں بدبودار ماحول ہی دے کر جائیں گے۔

دنیا بھر میں سوچ کے زاویے بدل رہے ہیں۔ کل تک بے کار سمجھے جانے والے کوڑے کرکٹ کو بھی ری سائیکل اور ری پروسیس کر کے اس سے قابل استعمال اشیا بنائیں جا رہی ہیں۔ ہم بحیثیت قوم وہیں دائرے کا سفر کر رہے ہیں۔ ہمارے لیے دائرہ وار ہی تو ہیں عشق کے راستے تمام۔ اگر کچھ بنا رہے ہیں تو صرف کچرے کے پہاڑ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).