آل پارٹیز سے ملٹی پارٹی کانفرنس تک


اپوزیشن کی گیارہ جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں آٹھ گھنٹے طویل ملاقات کی اور ایک نام نہاد ’مشترکہ اعلامیہ‘ بھی جاری کیا۔ ایک رہبر کمیٹی بنانے، سینیٹ چئیرمین محمد صادق سنجرانی کو تبدیل کرنے کے لئے ’آئینی طریقہ‘ اختیار کرنے، بجٹ کو عوام دشمن، تاجر دشمن، صنعت دشمن اور تعلیم و صحت دشمن قرار دے کر مسترد کرنے کے علاوہ حکومت پر سخت عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ تاہم اس کانفرنس کے بعد یہ بات واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ ملک کو لاحق سیاسی، معاشی اور سیکورٹی اندیشوں کے علاوہ خارجہ محاذ پر پیش آنے ولی مشکلات کے بارے میں اپوزیشن کے پاس بھی کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔

اپوزیشن کی یہ جماعتیں تحریک انصاف کی حکومت کو عوام دشمن اور ملک کے لئے نقصان دہ سمجھنے کی حد تک ایک نکتہ پر بظاہر متفق اور متحد دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم اس ایک معاملہ سے نمٹنے کے لئے بھی ان میں کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔ اسی لئے بظاہر سینیٹ چئیرمین کو تبدیل کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے لیکن اس سادہ معاملہ پر غور کرنے اور اسے ’آئینی طریقہ ‘ کے مطابق حل کرنے کے لئے ’رہبر کمیٹی ‘ قائم کرنے کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ شاید اس ایک متفقہ معاملہ پر بھی اپوزیشن کوئی مشترکہ اقدام کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ حالانکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے سینیٹ میں 44 رکن ہیں اور وہ چھوٹی پارٹیوں یا آزاد سینیٹرز کے ساتھ مل کر باآسانی صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا سکتی ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز اس قسم کی کسی تحریک کے خلاف پارٹی قیادت کو متنبہ کر چکے ہیں۔ اس لئے آج مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں منعقد ہونے والی کثیر الجماعت کانفرنس میں اس سوال پر اتفاق رائے تو کیا گیا ہے لیکن اس اتفاق کی عملی صورت سامنے آتی دکھائی نہیں دیتی۔

اس کانفرنس میں شریک ہونے والے سب اپوزیشن لیڈروں نے بجٹ کے خلاف دھواں دار تقریریں کیں اور اس کے عیوب اور کمزوریوں کو عیاں کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا۔ لیکن مشترکہ اعلامیہ میں یہ سادہ سا اعلان سامنے نہیں آ سکا کہ اپوزیشن کی سب جماعتیں مشترکہ طور پر حکومتی بجٹ کے خلاف ووٹ دیں گی۔ اس ماہ کے آخر تک قومی اسمبلی میں بجٹ پر رائے شماری ہوگی لیکن نہ تو اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ طور پر کوئی متبادل تجاویز پیش کی ہیں اور نہ ہی حکومت نے ایسا کوئی اشارہ دیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ کسی قسم کا اشتراک کرنے کی خواہشمند ہے۔

تحریک انصاف کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے۔ اپوزیشن حکومتی اتحاد میں شامل اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی کو ساتھ ملانے کا خواب دیکھ رہی تھی لیکن اختر مینگل نے آج اپوزیشن کی کانفرنس میں شرکت کرنے کی بجائے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کو ترجیح دے کر اپنا سیاسی لائحہ عمل واضح کردیا ہے۔ اس صورت میں اپوزیشن لیڈر بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ تحریک انصاف کے خلاف عدم اعتماد لانا یا بجٹ کے خلاف اکثر ارکان کی حمایت حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس صورت میں کانفرنس میں جمع ہونے والے لیڈر کم از کم مشترکہ طور سے ان بجٹ تجاویز کے خلاف ووٹ دینے کا رسمی فیصلہ تو کرسکتے تھے جنہیں وہ معاشرہ کے تمام طبقات کے مفاد کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔ تاہم اس نکتہ پر غیر واضح اعلامیہ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اپوزیشن لیڈر اس سوال پر بھی متفق نہیں ہیں۔

اپوزیشن پارٹیوں کے باہمی اختلاف کے علاوہ پارٹیوں کے اندر اسٹبلشمنٹ نواز اور اسٹبلشمنٹ مخالف دھڑے بندیوں کی وجہ سے ملک کی اپوزیشن اس وقت مکمل طور سے بحران اور انتشار کا شکار ہے۔ وہ مل کر بلند بانگ دعوے اور حکومت مخالف تقریریں تو کر سکتے ہیں لیکن کسی عملی اقدام کے اہل نہیں ہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو بھی اس صورت حال کا بخوبی علم ہے۔ اسی لئے حکومت کی طرف سے بجٹ پیش کرنے سے پہلے یا اس پر بحث کے دوران اپوزیشن سے راہ و رسم بڑھانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ بلکہ بجٹ پیش کرنے کے دوران اپوزیشن ارکان کی ہنگامہ آرائی پر سیخ پا ہو کر وزیراعظم نے اسی رات سیاسی مخالفین کے لتے لینے کے لئے قوم سے خطاب کیا اور اس میں سابقہ دو ادوار میں لئے گئے غیر ملکی قرضوں کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی بدعنوانی کا عنوان دے کر ان کی تحقیقات کروانے کا فیصلہ بھی صادر کیا۔ اب اس کام کے لئے عمران خان کے پسندیدہ افسر کی زیر نگرانی کمیشن قائم کیا جا چکا ہے جو چھے ماہ میں اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔

یہ کمیشن بنانے کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان نے کسی مشاورت یا قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر قومی ترقیاتی کونسل بنانے کا اعلان کیا ہے جو ملک کے معاشی اور بین الصوبائی مفادات کے معاملات کی نگرانی کرے گی۔ اس کونسل کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں آرمی چیف کو خاص طور سے شامل کیا گیا ہے۔ یوں حکومت نے اپنا یہ سیاسی ایجنڈا واضح کردیا ہے کہ وہ فوج کو صرف سیکورٹی معاملات دیکھنے یا سرحدوں کی حفاظت کرنے والا ادارہ نہیں سمجھتی بلکہ ملک کے ان تمام شعبوں میں بھی ساجھے دار مانتی ہے جن کا تعلق معیشت یا صوبوں کے ساتھ معاملات طے کرنے سے ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی کانفرنس نے بجا طور سے اس نئی قومی ترقیاتی کونسل کو مسترد کیا ہے اور کہا کہ قومی اقتصادی کونسل کی موجودگی میں ایسے کسی نئے ادارے کی ضرورت نہیں تھی۔ البتہ اس معاملہ کے اہم ترین نکتہ یعنی فوج کے سربراہ کو وزیر اعظم اور دیگر سول حکام کے ساتھ بیٹھ کر آئینی لحاظ سے سول دائرہ اختیار میں رکھے گئے امور پر رائے دینے اور فیصلے کرنے کا اختیار تفویض کرنے کے سوال پر کوئی بات نہیں کی گئی۔

یہی گنجلک نکتہ اس وقت تمام اپوزیشن پارٹیوں کے لئے سب سے زیادہ مشکل پیدا کرنے کا سبب بنا ہؤا ہے۔ اپوزیشن کی تمام پارٹیاں یا ان کے اندر پائے جانے والے بڑے گروہ بھی اسی مرکز سے طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں، جس کی سرپرستی اس وقت تحریک انصاف کو حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت تگ و دو کے بعد اسلام آباد میں منعقد ہونے والا اپوزیشن اجلاس آل پارٹیز کانفرنس سے ملٹی پارٹی کانفرنس بن گیا اور اس میں جماعت اسلامی جیسی احتجاجی پارٹی بھی شریک نہیں ہوئی جو ’عوام کی محبت‘ میں ہر اس حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کے لئے بے تاب رہتی ہے جس کا وہ خود حصہ نہ ہو۔

اس کانفرنس میں شریک ہونے والے اپوزیشن کے بڑے بڑے لیڈر بھی کوئی حکمت عملی سامنے لانے اور ملک کو درپیش مسائل کا کوئی حل پیش کرنے میں ناکام رہے۔ کیوں کہ یہ اجلاس ملک کو درپیش بحران کو حل کرنے میں معاونت کے لئے نہیں بلکہ یہ تاثر دینے کے لئے منعقد کیا گیا تھا کہ یہ پارٹیاں ماضی کی ’کوتاہیوں‘ کے باوجود تحریک انصاف اور عمران خان سے بہتر ’خدمت‘ انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بس ایک نظر کرم کا سوال ہے۔ اس کانفرنس کے ذریعے مخلتلف لیڈر اپنے اپنے طور پر یہ تاثر قوی کرنا چاہتے تھے کہ موجودہ حکومت کے خلاف عوام کا غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ مہنگائی کے سیلاب اور معاشی مشکلات سے عام آدمی ہی نہیں بلکہ تاجر اور سرمایہ دار طبقہ بھی عاجز آچکا ہے۔ اس لئے اب تبدیلی کے نام پر پرانے نمک خواروں کو ایک موقع اور دیا جائے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ طاقت کے مراکز ابھی اس ’وارننگ‘ پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اسی لئے اپوزیشن لیڈر بھی ’اسی تنخواہ‘ پر کام کرتے رہیں گے جو اس وقت دستیاب ہے تاآنکہ تحریک انصاف یا عمران خان سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہوجائے جو ناقابل معافی ٹھہرے۔

یہ درست ہے کہ مریم نواز کی بے چینی اس سے سوا ہے کہ ان کے والد اس وقت جیل میں بند ہیں اور ان کی رہائی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ وہ اشاروں کنایوں میں عمران خان کی بجائے انہیں ’سلیکٹ‘ کرنے والوں کے خلاف سینہ سپر ہونا چاہتی ہیں۔ کچھ ایسی ہی مشکل کا بلاول بھٹو زرادری کو بھی سامنا ہے۔ لیکن ان دونوں کا نہ تو اپنی اپنی پارٹی پر مکمل اختیار ہے اور نہ ان کے پاس اتنی سیاسی طاقت ہے کہ وہ اصولوں کی بنیاد پر ملک میں کوئی نئی سیاسی تحریک برپا کرسکیں۔ وہ پہلے سے موجود پارٹی ڈھانچے میں رہتے ہوئے کچھ نیا حاصل کرنے کی امید لگائے ہوئے ہیں لیکن فی الوقت اس کا امکان بہت کم ہے۔

اپوزیشن پارٹیوں کے اجتماع سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ بجٹ بھی منظور ہوجائے گا اور تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کوئی طاقت ور تحریک بھی سامنے آنے کا امکان نہیں ہے۔ اپوزیشن کی مفاد پرستانہ حکمت عملی میں البتہ منتخب ادارے پارلیمنٹ کا اختیار مجروح ہو رہا ہے اور سرکاری افسروں کی ایک کمیٹی سابقہ دو حکومتوں پر الزامات کا نیا ملبہ ڈالنے کی تیاری کر رہی ہے۔ عمران خان کو اگر موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کا موقع مل گیا تو وہ سیاست سے شریفوں اور زرداریوں کا نام مٹانے کی پوری کوشش کریں گے۔

ذاتیات کی بنیاد پر کی جانے والی سیاست کے اہداف اتنے ہی معمولی ہوتے ہیں۔ جب تک حکمران اور اپوزیشن سیاسی جماعتیں ایک ہی دائرے کا طواف کرنا ضروری سمجھتے رہیں گی، جمہوریت اور پارلیمانی اختیار کی باتیں سہانے نعرے سے زیادہ اہمیت اختیار نہیں کرسکیں گی۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali