فرحت ہاشمی پر اعتراض اور دین کے نام پر غنڈہ گردی


اتفاق دیکھئے کہ اپنے پچھلے مضمون میں میں نے مذہبی طبقہ کی سوالوں پر بپھر جانے کی جس عادت کا تذکرہ کیا تھا اس کا عملی اظہار ہم سب کے قارئین نے جلد ہی دیکھ لیا۔ ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے سلسلہ میں شائع مضمون پر جس قسم کے تبصرے ہوئے اسے دیکھ کر میری یہ رائے مزید پختہ ہو گئی کہ ہمارے یہاں دیندار کہلانے والے افراد کی ایک جماعت کو ہر اس ذہن سے نفرت ہے جس میں سوال پیدا ہوتے ہوں۔

مذکورہ مضمون میں اٹھائے گئے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے سیدھے گالم گلوچ پر اتر آنا بتاتا ہے کہ دیندار طبقہ کی ایک جماعت کو تحمل اور اخلاق کا سبق سیکھنے کی شدید ضرورت ہے۔ اسے المیہ ہی کہنا چاہیے کہ بنیادی اخلاقی قدروں کو عام گفتگو میں دن رات پائمال کرنے والے لوگ اس پیغمبر کے امتی ہونے کا دعوی کرتے ہیں جنہوں نے اپنی بعثت کا مقصد اخلاق کو اس کی بلندیوں تک پہنچانا قرار دیا تھا۔

میریٹل ریپ سے متعلق محترمہ فرحت ہاشمی کے جس بیان پر ہم سب میں مضمون شائع ہوا وہ میں کچھ دنوں پہلے سن چکا تھا۔ چند منٹ سننے کے بعد مجھے مزید سننے کا اشتیاق نہیں رہا تھا اور میں نے ویڈیو بند کر دی تھی۔ اب جب مضمون پر تبصروں کا بادل برستا دیکھا تو وہ بیان پورا سنا۔

محترمہ فرحت ہاشمی کے بیان پر میرا کیا موقف ہے یہ بات اہم نہیں ہے۔ ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انسان کی کہی ہوئی جس بات سے چاہے اتفاق کرے اور جسے چاہے مسترد کر دے۔ فساد تب شروع ہوتا ہے جب کوئی جماعت عقیدت کے چکر میں لوگوں سے یہ بنیادی حق چھین لینا چاہتی ہے۔ یہ حق چھیننے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ لوگوں کی زبان کھینچ لی جائے لیکن چونکہ یہ چیز بھائی لوگوں کے بس سے باہر ہے اس لئے ایسے طعنوں اور تبصروں کا سہارا لیا جاتا ہے جن کی مار کوئی آسانی سے نہیں جھیل سکتا۔

ایک بات واضح کر دوں کہ جس طرح محترمہ فرحت ہاشمی تنقید سے بالاتر نہیں ہیں ایسے ہی مضمون نگار کی رائے پر بھی تنقید کی جا سکتی ہے۔ مضمون پر کیے گئے تبصروں میں بہت سے ایسے تھے جنہوں نے مضمون سے سخت اختلاف کیا تھا لیکن چونکہ ان کے اعتراضات علمی اخلاقیات کے دائرے میں تھے اس لئے ان میں سے کسی کو ناگوار قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اب ذرا ایک نظر ان تبصروں پر ڈالئے جو سوال سے نفرت کرنے والے ذہن کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مضمون کی حمایت میں ایک خاتون نے تبصرہ کیا

”صرف اس لئے نہیں کہ میں ایک عورت ہوں تو یہ کہہ رہی ہوں بلکہ اس لئے کہ میں بالکل مانتی ہوں ہر عورت کے فرائض لیکن کیا ایک کے فرائض دوسرے کے حقوق نہیں ہوتے سب کچھ عورت کا ہی فرض ہے بغیر کسی گناہ کے بغیر تقصیر کے بے جرم سزا صرف عورت کی قسمت میں ہی لکھا جانا درست ہے بیٹے یا مرد راجے ہوتے ہیں صرف ان کے جذبات ہوتے ہیں ان کی خواہشات ہی سب کچھ ہوتی ہیں تو اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالی صرف مرد ہی کو بھیجتا دنیا میں جب دنیا بنی ہی دو رشتوں سے ہے توآپ اور میں کون ہوتے صرف ایک کو ہی فوقیت دینے والے پہلے اپنے فرائض کا تعین تو کر لیجیے پھر حقوق کی بات پر آئیں اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو عام عوام کو بلا وجہ گمراہ نا کریں پلیز“

مذکورہ بالا تبصرے میں نہ تو کوئی گالی تھی اور نہ ہی کوسنا لیکن اس کے جواب میں یہ تبصرہ فرمایا گیا ”اگر آپ اتنی آزادی پسند ہیں تو یہ مسلمانی کا سرٹیفیکیٹ جاری نہ کرواتی اب ٹائم ہے عیسائی مذہب قبول کرلیں کوئی آسان سا مذہب اپنا لیں تاکہ جب آپ کادل کرے اپنے باپ بھائی، اور بیٹے کے ساتھ یاکسی رشتے کے ساتھ دل بہلا لیں۔ “

یہ تبصرہ اس سوچ کا عکاس ہے کہ جب بھی ہمارے موقف سے الگ ہٹ کر کوئی بات کی جائے گی تو ہم سائل کو ہی بدنیت ثابت کرنے میں لگ جائیں گے تاکہ اس کا اعتراض ہی باطل ہو جائے۔ اس معاملہ میں بھی آپ پائیں گے کہ جوابی تبصرے میں کسی بھی سوال کو سرے سے ایڈریس ہی نہیں کیا گیا بلکہ سائل کی legitimacy ہی مشکوک کر دی گئی۔

اسی مضمون پر آئے ردعمل سے ہی ایک اور مثال دیکھئے۔ ایک خاتون نے تبصرہ کیا ”ڈاکٹر فرحت ہاشمی کیا آپ اپنے گھر کے کلی امور اپنے ہاتھوں سے سرانجام دینے کے بعد اپنی فراغت کے اوقات میں یہ دینی فرائض ادا کرتی ہیں جیسا کہ ہم سب ملازمت پیشہ خواتین کا معمول ہے کہ ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی بھی ذمہ داری نبھاتی ہیں۔ پھر تو آپ قابل ستائش ہیں وگرنہ یہ زبانی کلامی باتیں دوسروں کو سنانے کی کہ آپ کو فنڈنگ ملتی رہے آپ کے حلوے مانڈے چلتے رہیں دوسروں پہ فتوے جاری کرتے رہیں اور ان کو guilt میں مبتلا کرتے رہیں۔ “

اس تبصرے پر ایک صاحب ایسے بگڑے کہ فرمایا ”میرے خیال میں تم شیعہ ہو شاید غیر مسلم ہو شرم آنی چاہیے تمہیں۔ پہلے مسلمان عورت کی طرح پردہ کرو پھر دوسروں کے بارے میں بولنا دادی ماں۔ “

یہاں بھی وہی طریقہ واردات ہے کہ جب کسی سوال کا جواب نہ بن پڑے تو سائل کو دشمن یا بدنیت قرار دے کر جواب دینے کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جایا جائے۔

اب ذرا ایک اور پہلو پر توجہ فرمائیے اور وہ یہ کہ ہمیں جتنا معلوم ہے اس کے مطابق محترمہ فرحت ہاشمی انسان ہیں۔ بہت سے افراد کی طرح وہ بھی دین کی تفہیم و تعبیر کا کام کر رہی ہیں۔ اس لئے جس طرح جاوید غامدی اور مولانا وحید الدین خان کی دینی تعبیرات سے روایتی مذہبی طبقہ اختلاف کا حق رکھتا ہے تو کیا یہی حق ان لوگوں کو حاصل نہیں ہوگا جو فرحت ہاشمی کی تعبیرات سے اختلاف کرنا چاہتے ہیں؟ یہ تو انصاف نہیں کہ آپ دوسرے اسکالروں کی دینی تفہیم ایک جھٹکے میں مسترد کر دیں۔ ان کی تعبیر کو بے دینی قرار دیں اور ان کی تعبیر کو ماننے والوں کی گمراہی کا فتوی صادر کریں لیکن جب کوئی فرحت ہاشمی کی روایتی تعبیرات پر صرف سوال بھی اٹھائے تو آپ سوال کرنے والے کی ایسی تیسی کرکے رکھ دیں۔ معاف کیجئے یہ چیز دین کے نام پر غنڈہ گردی کی طرح ہے۔

اسی بارے میں: ڈاکٹر فرحت ہاشمی سے کچھ سوالات

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter