پہلے دھاندلی زدہ اِنتخابات


پاکستان کے مغربی منطقے میں جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں اور خانوں کا غلبہ تھا۔ یہ تو قائداعظم کی شخصیت کا سحر تھا کہ وہ ان علاقوں میں بھی تحریک پاکستان کے لیے بے پایاں جوش و خروش پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی، اسلامیہ کالج پشاور اور اسلامیہ کالج لاہور کے طلبہ نے پنجاب، سندھ اور سرحد کا ایک ایک قریہ چھان مارا اور زبردست انتخابی مہم چلائی اور مسلم ووٹروں نے قائداعظم کی طرف سے کھڑے کیے گئے امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالے، لیکن حالات کے جبر کے تحت زیادہ تر کامیاب امیدوار جاگیردارانہ ذہنیت سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے سرکاری افسروں کے ساتھ ملی بھگت سے پنجاب میں 1951 کے انتخابات میں ایک ایسا جھرلو پھیرا جو ہماری سیاسی تاریخ میں ایک دلخراش محاورے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔

تقسیم ہند سے پہلے جماعت اسلامی کا مرکز دارالسلام (پٹھان کوٹ) میں تھا۔ وہ اس وقت کلی طور پر ایک غیرسیاسی تنظیم تھی۔ اس نے معاشرے سے کٹ کر اپنی ایک علیحدہ بستی آباد کی تھی جس میں اسلامی تعلیمات کے مطابق کردار سازی پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ اس نے قیام پاکستان سے چند سال پہلے یہ پالیسی وضع کی تھی کہ اس کے ارکان سرکاری ملازمت کریں گے نہ ان کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ 1945 کے لگ بھگ ہمارے شہر سرسہ میں مسلم نائب تحصیل دار جناب چودھری نذیر احمد تبدیل ہو کر آئے۔

وہ جماعت اسلامی سے متاثر تھے، چنانچہ جب اس نے اپنی پالیسی کا اعلان کیا، تو وہ ملازمت سے مستعفی ہو گئے اور اپنے بیٹے ظہور احمد کو اسکول سے اٹھا لیا۔ اس پر مجھے قدرے دکھ ہوا، کیونکہ وہ میرا اسکول فیلو تھا۔ اس کے بعد چودھری نذیر احمد اور جماعت اسلامی کے کارکنوں نے شہر سے چار پانچ میل دور نہایت محترم شخصیت جناب حکیم عبداللہ کی قیادت میں دارالسلام کے نام سے بستی آباد کی، مگر ڈیڑھ دو سال بعد ہی ہندوستان تقسیم ہو گیا اور ہمارے شہر کے قرب و جوار میں فسادات پھوٹ پڑے۔ ایک روز چودھری نذیر احمد سرسہ آئے، تو کرفیو کا اعلان ہوا اور وہ واپس دارالسلام نہ جا سکے، البتہ چند روز بعد لاہور پہنچ گئے۔ ان کی بے چین روح پاکستان پہنچ کر علمی سرگرمیوں میں مشغول ہو گئی اور انہوں نے ملتان میں ’جامع العلوم‘ قائم کیا جو دینی اور عصری علوم پڑھانے کی ایک مثالی درس گاہ ہے۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی پٹھان کوٹ سے ہجرت کر کے 5۔ ذیلدار پارک اچھرہ، لاہور میں رہائش پذیر ہوئے۔ پاکستان آتے ہی جماعت اسلامی نے تباہ حال مہاجرین کی خدمت اور دیکھ بھال کو اولین ترجیح دی۔ عوام اس کے کارکنوں کی بے لوثی اور ڈسپلن سے بہت متاثر ہوئے جو ہزاروں کی تعداد میں شب و روز خدمت خلق میں مصروف تھے۔ 1948 میں دریائے راوی میں ہلاکت خیز سیلاب آیا اور شیخوپورہ پانی میں ڈوب گیا۔ جماعت اسلامی کے لاتعداد کارکن اور متاثرین سیلاب میں گھرے مصیبت زدگان کو محفوظ مقامات پر پہنچاتے اور انہیں زندگی کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرتے رہے۔

بدقسمتی سے حکومت پنجاب کی طرف سے جہاد کشمیر کا تنازع کھڑا کر دیا گیا اور سید ابوالاعلیٰ مودودی سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیے گئے۔ بیس ماہ بعد لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے ان کی رہائی عمل میں آئی، تو پنجاب میں انتخابات سر پر تھے۔ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے انتخابی عمل میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، کیونکہ پاکستان کے اجتماعی معاملات کو اسلامی سیاسی نظام کے تقاضوں میں ڈھالنا مقصود تھا۔ مولانا نے پورے پنجاب میں انتخابی جلسوں سے خطاب کیا اور ووٹروں پر یہ بات واضح کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ اگر وہ دیانت دار، فرض شناس اور اسلامی ذہن رکھنے والے افراد منتخب کریں گے، تو پاکستان جمہوری اور سیاسی اعتبار سے مستحکم ہو گا۔ لوگ ان کے جلسوں میں کھنچے چلے آتے۔ اس پر غالباً مولانا خوش فہمی کا شکار ہو گئے اور ساہیوال کے ایک انتخابی جلسے میں یہ اعلان کر دیا کہ اگر انتخابات شفاف ہوئے، تو جماعت اسلامی سو کے لگ بھگ نشستیں جیت لے گی۔

حیرت کی بات یہ کہ مولانا جیسے زیرک اور دوربیں راہنما نے انتخابی عمل میں اترنے سے پہلے ایک استحصالی نظام کے تحت رہنے والے لوگوں کی نفسیات، ان کا مزاج اور ان کے حقیقی مسائل سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کیوں نہیں کی۔ پنجاب کے عوام جاگیرداروں اور ذات برادریوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے، جبکہ حکومتوں کی خدمات بجا لانے والی بیوروکریسی اصولوں اور ضابطوں کی پاسداری کے بجائے ہر غلط کام کرنے میں طاق تھی۔ ایسے حالات میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

حکمران جماعت کی بے دریغ دھاندلی کے باعث انتخابات میں جماعت اسلامی کا صرف ایک رفیق کامیاب ہوا، جبکہ مسلم لیگ بھاری اکثریت سے جیت گئی اور اس نے آمرانہ روش اختیار کی۔ ایک نوزائیدہ ملک میں عوام کے بنیادی حقوق انتہائی بے دردی سے تلف ہونے لگے، تو سید مودودی نے پوری قوت سے آٹھ نکاتی دستور کا مطالبہ اٹھایا۔ یہ آٹھ نکات نظریاتی اور بنیادی حقوق سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا اعلان کیا جائے، قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہ کی جائے اور جو قوانین شریعت کے خلاف نافذ ہیں، ان کی اصلاح کی جائے۔

اسی طرح یہ بھی طے کیا جائے کہ ریاست شہریوں کو روزگار فراہم کرنے، انہیں معیاری تعلیم دلانے، ان کی صحت کا خیال رکھنے، انہیں بنیادی حقوق فراہم کرنے اور ان کی جان، مال اور عزت کے تحفظ کی ذمے دار ہو گی۔ معاشی اور معاشرتی ناہمواریاں دور کرنے اور عدل و انصاف کا ایک اعلیٰ نظام قائم کرنے کی پابند ہو گی۔ اس آٹھ نکاتی مطالبے پر عوام سے دستخط کرائے جا رہے تھے جس کے سبب غیرجمہوری اور لادینی طاقتیں سخت پریشان ہوئیں۔

انہوں نے سیاست کو ایک ایسی ڈگر پر ڈالنے کے لیے مسلسل سازشیں کیں جن کی وجہ سے آج بھی شفاف انتخابات کا انعقاد ایک گھناؤنا خواب دکھائی دیتا ہے۔ دراصل معاشرے کے طاقت ور طبقے عوام کو با اختیار بنانے اور ان کی اجتماعی فیصلوں میں شرکت کے حق میں نہیں تھے اور انہوں نے اولین انتخابات ہی میں یہ پیغام دے دیا تھا کہ وہ عوام کے مینڈیٹ کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دیتے۔ یہی جاں گسل کشمکش آج بھی جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments