انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں سکیورٹی آپریشنز کے دوران مسمار گھروں کے مکین


انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں دہائیوں سے جاری امن و امان کے نامساعد حالات کے باعث نہ صرف یہاں انسانی جانیں ضائع ہوئیں بلکہ کروڑوں روپے مالیت کی املاک بھی تباہ ہو چکی ہیں۔

انڈین سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان ہونے والی مُڈ بھیڑ کے دوران عموماً رہائشی مکانات بھی نشانہ بنتے ہیں۔

سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان مسلح جھڑپوں میں ہزاروں کی تعداد میں رہائشی مکانات تباہ ہوئے جس کی وجہ سے ان گھروں کے مکینوں کو بے گھر ہونا پڑا۔ بے گھر افراد کو طرح طرح کی دشواریاں بھی جھیلنی پڑتی ہیں۔

کشمیر میں بے گھر ہونے والے افراد کی کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔

ان لوگوں میں ضلع کلگام سے تعلق رکھنے والے عبدالغنی میر شامل ہیں جو رواں برس فروری میں اپنے بنائے ہوئے خوابوں کے محل سے نکل کر سڑک پر آ گئے تھے۔

عبدالغنی کے مطابق 10 فروری کی علی الصبح ان کے گھر عسکریت پسندوں نے پناہ لے لی تھی۔ سکیورٹی فورسز نے اس عمارت میں چھپے عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ میر کے گھر کو بھی مسمار کر دیا تھا۔

میر کی اہلیہ کے مطابق مکان کو تعمیر کیے صرف پانچ برس ہی ہوئے تھے جبکہ تصادم کے وقت ان کے شوہر وادی سے باہر گئے ہوئے تھے۔ ’آج ہم اہل خانہ سمیت ایک رشتہ دار کے گھر پناہ لیے ہوئے ہیں۔’

میڈیا کے ایک سروے کے مطابق سنہ 2019 میں 100 کے قریب عسکریت پسند مارے گئے جبکہ سنہ 2015 سے مارچ سنہ 2018 تک 105 رہائشی مکان تباہ ہوئے۔

سنہ 2018 کے اوآخر میں سرینگر کے قریب ایک آپریشن کے دوران سات رہائشی مکان مسمار کیے گئے۔

حال ہی میں جنوبی کشمیر کے علاقے واگہامہ میں فوج اور عسکریت پسند گروہ کے درمیان جھڑپ میں محمد اشرف کا مکان بھی تباہ ہوا۔

محمد اشرف کے مطابق یہ بات قابلِ تعجب ہے کہ عسکرت پسندوں نے کبھی ان کے گھر میں پناہ نہیں لی لیکن اس کے باوجود آپریشن کے دوران ان کے مکان کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

ان کا کہنا تھا ‘ہم نے پوری زندگی کی محنت سے بنایا ہوا اپنا آشیانہ ایک ہی پل میں ملبے کے ڈھیر میں بدلتے دیکھا۔’

1990 کی دہائی سے رہائشی عمارتوں کی تباہی کے اس سلسلے کی ذمہ دار صرف سکیورٹی فورسز نہیں ہیں۔

عسکریت پسندوں نے بھی سینکڑوں سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنا کر حکومت کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ ایسی عمارتوں میں سرکاری دفاتر، پولیس سٹیشن اور دیگر عمارتیں شامل ہیں۔

انڈین حکومت کے مطابق گذشتہ برس 238 عسکریت پسند، تین عام شہری جبکہ 86 سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہلاک ہوئے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق سنہ 2016 سے سنہ 2018 تک کشمیر میں بڑے پمیانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔

مقامی آبادی اور متاثرین کے مطابق اتنا سب ہونے کے باوجود عسکریت پسندی میں کمی کے بجاے اضافہ ہوا ہے لیکن کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے حال ہی میں کہا ہے کہ کشمیر میں سکیورٹی فورسز نے شدت پسندی کو ناکام بنا دیا ہے۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ گذشتہ برس کے دوران فوجی آپریشنز میں عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ان میں 267 عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔

سرکاری سطح پر امداد نہ ملنے کے باعث عموماً مقامی لوگ امداد باہمی کے جذبے کے تحت ایک دوسرے کی مدد کرتے آئے ہیں۔ جانی و مالی نقصان کی صورت میں رشتہ دار اور ہمسائے مل کر مصیبت کا سامنا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32470 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp