ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لئے ایک ’غیر ماہرانہ‘ مشورہ!


راولپنڈی کی مال روڈ پرموٹر سائیکل سواروں کے غول در غول ٹریفک سگنلز پر رکے بِھڑوں کی طرح بھنبھناتے نظر آتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب ٹریفک وارڈنز نے سختی کی تو سب موٹر سائیکل سواروں نے ہیلمٹ پہننا شروع کر دیے تھے۔ اب جبکہ مہم ماند پڑی ہے تو سواروں نے ہیلمٹ سر سے اتار کرموٹر سائیکلوں کے ہینڈلوں پر لٹکا لئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ قانون کی عملداری سے بڑھ کر ہیلمٹ کا پہننا کسی حادثے کی صورت میں خود سوار کی سلامتی کے لئے کس قدراہم ہے۔

جان کی جس کو مگر پرواہ نہیں توایسی کیا ترغیب ہو کہ قانون پر عملداری کا اس کے دل میں احساس اجاگر کیا جا سکے! عجب خیال میرے دماغ میں آتاہے۔ سوچتا ہوں کسی طرح ان موٹر سائیکل سواروں کو محض یہ باور کرایا جاسکے کہ ہیلمٹ پہن کر گھر سے نکلو تو کاروبار یا ملازمت میں بالترتیب برکت اور ترقی ملتی ہے، رزق اور قوت باہ میں اضافہ ہوتا ہے، نیز یہ کہ اگلے پندرہ یوم میں غیب سے کوئی بڑی خوشخبری ملنے کا امکان ابھی باقی رہتا ہے، تو میرا دل کہتا ہے کہ ہر گلی کوچے میں پاکستانی ہمہ وقت ’کنٹوپ‘ اوڑھے نظر آئیں گے۔ سوشل میڈیا رزق میں اضافے، کاروبار میں برکت سے لے کر قبر میں منکرنکیر سے معاملہ میں آسانی تک کے لئے وظائف، اذکار اور اعمال سے بھرا پڑا ہے۔

جیسے موٹر سائیکل سوار کھلی آنکھوں سے اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہیں، بالکل ویسے ہی یہ جانتے ہوئے کہ کسی بھی ملک کی معیشت کا انحصارٹیکس وصولی کی شرح پر ہوتا ہے، پاکستانیوں کا شمار دنیا میں سب سے کم ٹیکس دینے والی قوموں میں ہوتا ہے۔ اگر چہ موجودہ ٹیکس کا نظام مروجہ جمہوری نظام کی طرح مغرب سے مستعار لیا گیا ہے، تاہم جمہوریت کی طرح ٹیکس کا بنیادی تصور بھی اسلام میں زکوٰۃ و عشر کی شکل میں پہلے سے موجود رہا ہے کہ جس کے تحت معاشرے کے خوشحال افراد اپنی آمدنی کے تناسب کے لحاظ سے حکومت کے خزانے میں رقوم جمع کرواتے ہیں، جو کہ حکومتِ وقت اپنی صوابدید کے مطابق ضرورت مندوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کی ذمہ داری لیتی ہے۔

زکوٰۃ کی رقم براہ راست اپنے عزیزوں، جان پہچان والے ضرورت مندوں اور خیراتی اداروں کو بھی دی جا سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں کئی ایک عظیم الشان ادارے محض عوام کی طرف سے دی گئی زکوٰۃ اور خیرات کے بل بوتے پر چلتے ہیں۔ صدقہ و خیرات اور سخاوت عالمگیر مذاہب کی تعلیمات کا بنیادی جزو ہیں۔ حضری عیسیٰ ؑ کا فرمان ہے کہ اونٹ تو سوئی کے ناکے سے باآسانی گزر سکتا ہے، مگر بخیل دولت مند کا جہنم سے بچ نکلنا ممکن نہیں۔ اسلام میں صدقہ و خیرات کی اہمیت اس طرح بھی دو چند ہو جاتی ہے کہ اللہ نے اپنی کتاب میں فرما دیا کہ اس کی راہ میں دیا گیا مال گویا اس کی ذات پر ایک قرض ہے، جس کا بدلہ نہ صرف آخرت بلکہ اس دنیا میں بھی پورے کا پورا، بلکہ بڑھا کر لوٹایا جائے گا۔

اللہ کے نبی ؐ کہ سخاوت میں اپنی مثال آپ تھے، خلفائے راشدینؓ اور بیشتر صحابہ کرام ؓنے بھی زندگی، محض اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر، فقراور قناعت میں بسر کی۔ جو ہاتھ میں آیا دوسرے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں لوٹا دیا۔ دنیا بھر میں مسلمان اپنی مہمان نوازی، اخوت اورسخاوت کی بناء پر جانے جاتے ہیں۔ صدقہ و خیرات بلاؤں کو بھی ٹالتا ہے۔ چنانچہ ہر سال پاکستان میں بھی اربوں روپے خیرات کیے جاتے ہیں۔ ماہ رمضان میں تومومنوں کے دل پگھل کر ان کی آنکھوں سے بہہ نکلتے ہیں۔

اربوں روپے ہاتھ بدلتے ہیں۔ پورا سال وطن ِعزیز کے شہروں اور قصبوں میں مخیر حضرات کروڑوں روپے صرف کرتے اور وسیع وعریض دسترخوان سجاتے ہیں۔ جہاں سے ہر روز ہزاروں مزدور، پردیسی اور نادار اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ ایسے ہی مخیر حضرات مفلس والدین کی بچیوں کی اجتماعی شادیوں کا اہتمام کرتے اور ان میں آسانیاں بانٹتے ہیں۔ ٹرسٹ کے خیراتی ہسپتالوں میں غریب غرباء کا علاج فی سبیل اللہ کیا جاتا ہے۔ مدرسوں میں زیر تعلیم مفلس بچوں کی کفالت اپنے سر لے لی جاتی ہے۔

مسجدیں بناتے اور آباد رکھتے ہیں۔ سیلاب، زلزلہ اور دیگر قدرتی آفات میں تجوریوں کے منہ کھول دیے جاتے ہیں۔ چھٹیاں اگرچہ یورپ و امریکہ میں گزارتے ہیں، حج وعمرہ کے علاوہ رمضان کا آخری عشرہ مگر حرمین شریفین میں ہی بسر کرتے ہیں۔ مخیر حضرات ملکی حالات پر بھی ہمہ وقت دل گرفتہ وپریشان رہتے ہیں۔ مہنگائی کے ہاتھوں لاچار عوام کو پستے دیکھ کر ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ملک میں کاروباری حالات سے ہمیشہ شاکی رہتے ہیں، تاہم شرح منافع گھٹانے سے خود کو قاصر پاتے ہیں۔

ہاریوں، مزدوروں، ملازموں کی تنخواہیں نہیں بڑھاتے، مگر صدقہ و خیرات سے ان کی دل جوئی کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں رب بھی راضی رہتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں، جو مال دار طبقے کے مفادات کا خیال رکھیں، ان کے پارٹی فنڈز میں عطیات فراغ دلی سے دیتے ہیں۔ مفادِعامہ کے کاموں پربخل نہیں کرتے۔ فیصل آباد کے مخیر حضرات نے اپنی مدد آپ کے تحت شہر میں سیاہ کشادہ سڑکوں کا جال بچھا دیا۔ سیالکوٹ میں چند مخیر حضرات نے مل جل کر بین الاقوامی ائیر پورٹ تک کھڑا کر دیا۔

حکومتوں پر لیکن انہیں زیادہ اعتماد نہیں، لہٰذا پوراٹیکس نہیں دیتے۔ ان میں سے بعض حضرات کا خیال ہے کہ ملک کے روز مرہ معاملات چلانے، غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی، اور ملکی دفاع کے لئے چونکہ کاروباری طبقہ مزید کسی قسم کے بوجھ کا متحمل نہیں ہو سکتا، لہٰذا حکومت کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے و صول کیے گئے ٹیکس پر ہی اکتفاء کرنا چاہیے۔

اب کی بار ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی ناکامی کی صورت میں حکومت کے پاس کیا راہ بچتی ہے؟ ہم کہ ساری عمر ننانوے کے شیطانی پھیرے میں راکھ کر دیتے ہیں۔ وظیفے کرتے ہیں۔ آیات قرآنی کاروبا ر میں وسعت کے لئے دفتروں اوردکانوں میں آویزاں کرتے ہیں، چِلّے کاٹتے ہیں، کوسوں کی مسافت طے کر کے مزاروں پر ماتھے ٹیکتے ہیں۔ بڑے بڑے نامور سیاست دان اور حکمران بھی اپنے اپنے بابوں سے پیٹھوں پر سوٹیاں اور چابک کھانے کے لئے ان کے پہاڑی آستانوں پر پہنچتے او ر فیض پاتے ہیں۔

میں چونکہ کوئی ماہرِمعاشیات نہیں ہوں لہٰذا ایک ’غیرماہرانہ‘ تجویز میرے ذہن میں آتی ہے کہ کسی طرح اگرکسی بابا جی سے یہ کہلوا دیا جائے کہ ٹیکس کی ادائیگی سے نہ صرف یہ کہ ٹیکس دہندہ کے رزق اور قوتِ باہ میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا بلکہ چہرے پر نور بھی آئے گا، نیز یہ کہ پندرہ یوم کے اند ر اندر غیب سے کسی چھوٹی بڑی خوشخبری ملنے کے امکانات اس کے علاوہ ہوں گے، تو امید کی جا سکتی ہے کہ مخیر حضرات کے علاوہ چھوٹے بڑے پاکستانی بھی جوق در جوق ایمنسٹی سکیم میں شامل ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).