اسلامی قلعے میں محفوظ عورتیں یا محصور عورتیں


سمیرا ایک بیس سالہ لڑکی ہے، ہمارے پڑوس میں گھریلو کام سر انجام دینے پچھلے پانچ سال سے روز آتی ہے اور ماہانہ تنخواہ پاتی ہے۔ کچھ عرصے سے میں بھی ہفتے میں ایک دن سمیرا کو کپڑے دھونے کے لئے بلاتی ہوں، اور اس کی اجرت سمیرا کو دیتی ہوں، باقی گھر کے کام خود ہی کرتی ہوں۔

سمیرا نے کچھ دنوں سے برقع پہننا شروع کر دیا ہے۔ وجہ پوچھی تو بتایا، کہ راستے میں آتے جاتے کسی نے نا زیبا حرکات کیں اور آوازے کسے ہیں، پیچھا کیا ہے۔ پوچھا، کیا برقع پہننے سے یہ حرکات بند ہو جائیں گی؟
تو سمیرا نے کہا، نہیں لیکن مجھے کوئی پہچانے گا نہیں۔ میری بد نامی تو نہیں ہو گی ناں باجی۔

میں چپ رہی۔ سمیرا کو کہہ نہ سکی، کہ تمھاری بد نامی کیوں ہو گی۔ اسلامی قلعے کے ان مجاہد و مجاہدات کی بد نامی کیوں نہ ہو جو ہر وقت جذبات کا جہاد کرتے ہیں، جن کے درس اور لیکچر آسمانی حور سے شروع ہو کر زمین پر موجود عورت کو صرف اس کی جنس کی حد تک محبوس کرنے تک محدود ہیں، جو کبھی اپنے درس یا لیکچر میں یہ نہیں کہتے کہ عورت انسان ہے، اس کو کھانے پینے، پہننے اور راستے میں چلنے کا حق ہے بالکل اسی طرح جس طرح مرد کو ہے۔

یہ کوئی آج کی بات تھوڑی ہے، ہم اپنے اسکول کے زمانے سے سن رہے ہیں۔ ہمارا گھر قریب تھا، میں اور میری کزنز پیدل جاتے تھے، لیکن موٹرسائیکل کی آواز پر سمٹ جاتے تھے کہ کوئی ہاتھ لگاتا ہوا، یا چٹکی کاٹتا ہوا نہ چلا جائے، کوئی پرس نہ چھین لے۔ یہ خوف پورے اسلامی قلعے کی خواتین کو رہتا ہے، اور ساری عمر رہتا ہے۔ جو پبلک بس میں آتی تھیں، ان کے الگ قصے تھے، الگ ڈر تھے، عظیم قوم کے چھوٹے چھوٹے خوف۔

مرد کو بھی اسی طرح حیا کرنے کا حکم ہے، جس طرح عورت کو کہا جاتا ہے۔ مرد کو کس نے کہا ہے کہ وہ راہ میں چلتے یا بس یا موٹر سائیکل پر سوار ہو تو عورت کو ہاتھ بھی لگا دے اور اپنا عضو بھی دکھا دے۔

ایک بھی دینی درس یا لیکچر میں یہ بنیادی اخلاقیات نہیں بتائی جاتی۔ بنیادی تربیت نہیں کی جاتی، کہ ایک مسلمان مرد کو معاشرے میں کس طرح برتاؤ کرنا ہے۔ عورت خود کو راستے میں چلتے، سیپارہ پڑھتے، اسکول میں یا جامعہ میں پڑھائی کرتے محفوظ تصور نہیں کرتی، لیکن دن رات اسلامی و مشرقی روایات کا اتنا پرچار ہوتا ہے کہ گمان ہونے لگتا ہے کہ جنت تو یہی ہے اور عورتیں حوریں ہیں۔ جن کا کام صرف اپنے مجازی خداوں کے لئے ہر وقت بستر تیار رکھنا ہے، کیونکہ عورت کو تو بنایا ہی اسی لئے گیا ہے کہ وہ بستر گرم کرے اور بستر گرم کرنے کے نتیجے میں ڈھیروں ڈھیر بچے پیدا کرے۔ چاہے مجازی خدا بچوں کے لئے مناسب کھانے پینے اور تعلیم کا بندوبست بھی نہ کر سکے، لیکن بس مجازی خدا کی ضرورت پوری کرنی ہے، عورت بچے پیدا کر کے لاغر و ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جائے، لیکن شوہر کو خوش رکھے۔

اسی بستر گرم رکھنے کے نتیجے میں سمیرا کا وجود اس دنیا میں آیا اور سمیرا کو اپنا اور اپنے نو عدد بہن بھائیوں کا پیٹ بھرنے کے لئے گھر گھر کام کے لئے نکلنا پڑا، ایسے معاشرے میں جہاں ”ماسی“ کا پردہ بھی جائز نہیں سمجھا جاتا، میری پڑوسن اور میری ساس کا خیال ہے کہ سمیرا کون سی عزت دار ہے جو اس کو خاندانی عورتوں کی طرح عبایا پہننے کی ضرورت پیش آئی، یعنی اس اسلامی معاشرے میں پردہ بھی صرف جاگیردار اور کاروباری گھرانے کی خاندانی عورت کر سکتی ہے۔ کھیتوں میں کام کرنے والی عورتیں یا گھریلو کام کے لئے آنے والی ملازمہ پر پردہ فرض نہیں ہے، کیوں کہ وہ تو ہیں ہی مجاہدین کی زیادتیاں سہنے کے لئے، سماج کے یہ دُہرے اور منافقانہ معیار ہی سماج کی تنزلی اور بگاڑ کا سبب ہیں، جہاں ”چائلڈ ایبوز“ کے خلاف ایک درس، لیکچر یا فتوی نہیں آتا لیکن حور و جنسی تعلق کی باتیں بار بار دُہرائی جاتی ہیں۔

مخالف کو گالیاں بھی ماں۔ بہن کی دی جاتی ہیں۔ اور ہر ان پڑھ اور پڑھا لکھا مرد فخریہ دیتا ہے۔ جب کہ دین کے مطابق گالی دینا فسق ہے اور دینے والا فاسق۔

انسان اور اس کی زندگی بہت اہمیت کی حامل ہے، سماج میں بنیادی انسانی حقوق کی ادائیگی، انصاف کی فراہمی، اور عورت کو انسان سمجھنے کی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔

معاشرے کے سارے مرد برے بھی نہیں ہیں، لیکن خرابی یہ ہے کہ معاشرے کے اچھے مرد سماج کے سدھار میں کوئی حصہ نہیں لے رہے ہیں، اچھے مردوں نے عورتوں کو مختلف درجات میں محصور کیا ہوا ہے، گھر کی عورتیں۔ باہر کی عورتیں۔ شوبز کی عورتیں، ایسی عورتیں ویسی عورتیں، وغیرہ وغیرہ۔

اکثر گھرانوں کے مرد، عورتوں کو تعلیم تو دلواتے ہیں لیکن نوکری کی اجازت نہیں دیتے، گویا سماج کے مردوں کو ایک دوسرے پر بھروسا نہیں ہے۔ یعنی ہم ستر سال سے ایسا سماج بھی نہیں تشکیل دے سکے ہیں جہاں انسان یا تو عین شرعی اسلامی اصولوں پر جئیں یا پھر مکمل آزاد ہوں لیکن ان کے بنیادی انسانی حقوق پورے ہوتے ہوں۔

مذہب عقائد کا مجموعہ ہے اور دین زندگی گزارنے کے اصول سکھاتا ہے۔ تمام مذاہب انسانوں کو نظم و ضبط کا پا بند کر تے ہیں۔ انسانی جبلتوں کو قابو کرنے کے طریقے بتاتے ہیں۔ جنس انسان کی ثانوی ضرورت ہے، ہو سکتا ہے، آدھے لوگوں کے نزدیک یہ پہلی ضرورت ہو، لیکن عظیم ”سعادت حسن منٹو“ ستر سال پہلے ہی اپنے مضمون ”زندگی“ میں لکھ گئے۔

زندگی گندے خون کے نکاس کا نام نہیں ہے۔ زندگی کا مفہوم مسئلہ ازدواج تک محدود نہیں ہے۔ زندگی مرد اور عورت کے ملاپ کا نام نہیں ہے۔ زندگی نام ہے حرکت کا۔ زندگی نام ہے کشمکش کا زندگی نام ہے بیباکی کا، زندگی نام ہے زندہ رہنے کا۔ زندگی نام ہے زندہ رہنے کا مطالبے کا۔

خدارا عورتوں کو انسان سمجھتے ہوئے زندہ رہنے کا حق دیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).