مولانا فضل الرحمٰن کا انداز سیاست اور مزاحمت


تحریک بحالی جمہوریت کی طویل جدوجہد کے بعد جب 1988ء میں انتخابات منعقد ہوئے اور نئی حکومتیں بنیں تو بلوچستان میں حکومت سازی کے سوال پر پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت اور نواب اکبر خان بگٹی کی قیادت میں بننے والے بلوچستان نیشنل الائنس کے درمیان ٹھن گئی۔ پیپلز پارٹی کی پسپائی کے بعد بگٹی صاحب نے جو حکومت تشکیل دی، اس میں جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ بڑے حصہ دار کے طور پر سامنے آیا۔

مخلوط صوبائی حکومت میں شمالی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر صوبائی وزیر مقرر ہوئے جن کے پاس وزارت خزانہ کا قلمدان بھی تھا۔ اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کے بعد حسب روایت صحافیوں اور پریس کو اعتماد میں لینے کے لئے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ پریس کانفرنس سے پہلے صحافیوں کا خیال تھا کہ اسمبلی میں لکھی ہوئی تقریر پڑھنا تو آسان ہے مگر معیشت اور مالیات کی موشگافیاں سمجھنا اور ان کے بارے میں سوالات کا سامنا کرنا شایدایک مولوی کی بس کی بات نہ ہو۔ پریس کانفرنس کے دوران مولانا کا اعتماد، فصاحت و بلاغت دیکھ کر سبھی ان کے معترف ہوئے کہ مولوی دین ہی نہیں دنیا کے بارے میں بھی جانتا ہے۔

ایک بار میں نے جئے سندھ محاز کے چیئرمین عبدالوحید آریسر صاحب مرحوم سے ان کی تعلیم کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا وہ وہ کامریڈ آریسر کہلانے سے پہلے مولانا عبدالوحید آریسر کہلاتے تھے، جو انگریز استعمار کے جبر و استبداد کے خلاف مزاحمت کے لئے قائم کردہ دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے۔ آریسر صاحب کا کہنا تھا کہ دار العلوم دیو بند میں ان کو ادیان کے بارے میں تقابلی علوم کے علاوہ فلسفہ اور منطق کی تعلیم بھی دی گئی تھی۔ طلبا کو مارکسزم، کیپیٹل ازم اور اسلامی معاشی نظام بھی پڑھایا جاتا تھا، جس کی وجہ سے معیشت، سیاست اور معاشرت کو سائنسی انداز میں سمجھنے میں ان کو کوئی دشواری پیش نہیں آئی اور وہ بہ آسانی مولانا سے کامریڈ بن گئے تھے۔

دار العلوم دیوبند کے سیکولر موقف اور کانگریس سے یہاں کے اکابر کی قدیم تعلق کی وجہ سے ہندوستان کے سیاسی حلقوں میں یہ ادارہ بڑا با اثر سمجھا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن صاحب دار العلوم دیو بند کے اکابر میں شامل ہونے کی وجہ سے ہندوستان کے سفارتی اور سیاسی حلقوں میں بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کو محترمہ بے نظیر بھٹو ہی نے پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کا چیئرمین ان کی ہندوستانی سیاسی اور سفارتی حلقوں میں اثر و رسوخ کی وجہ ہی سے بنایا تھا۔

ملک کے لبرل حلقوں کے علاوہ تلوار ہاتھ میں لے کر کشمیر فتح کرنے کے شوقین مذہبی حلقے بھی مولانا کی کشمیر کمیٹی کی قیادت کرنے کو ہدف تنقید بناتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ کشمیر کو لے کر جو سیاست اور سفارت ہوتی ہے اس میں ہندوستان کے سیکولر حلقوں کوانگیج کرنے میں دار العلوم دیوبند جیسے ادارے کیا کردار ادا کرتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کا انداز سیاست بھی مختلف ہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں جب افغانستان کا تندور گرم تھا جس میں مذہبی حلقے اپنی اپنی روٹیاں لگانے میں مصروف تھے تو اس وقت ان کی جماعت اس بات پر تقسیم بھی ہو گئی، مگر فضل الرحمٰن صاحب نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں ایسی کسی بھی کھلی مداخلت سے گریز کیا، جس کا سہرا جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام کے دوسرے گروپ اپنے سر پر سجائے رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ مولانا تحریک برائے بحالی جمہوریت میں شامل ہو کر ضیا آمریت کے خلاف پیپلز پارٹی کے ساتھ جدوجہد میں شامل رہے اور قیدِ بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

دار العلوم دیوبند سے منسلک لوگ جو ہمارے ہاں دیوبندی کہلاتے ہیں، ان کی تعداد پختونوں میں زیادہ ہے جو افغانسان میں بھی آباد ہیں۔ افغانستان کی خانہ جنگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی دہشت گردی میں سب سے زیادہ متاثر بھی پختون اور دیوبندی ہی ہوئے۔ دیوبندی مکتبہ فکر کے علما کا ایک بڑا گروہ اس خانہ جنگی اور دہشت گردی کے خلاف تھا جن کو نشانہ بھی بنایا گیا اور کئی ایک جید علما جان سے بھی گئے۔ خود مولانا فضل الرحمٰن پر کئی حملے ہو چکے ہیں مگر ان کا آج بھی موقف یہی ہے کہ معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے والی دہشت گردی جہاد نہیں ہے۔

گو کہ پاکستان میں سیکولر ازم کے سوال پر مولانا فضل الرحمٰن کا موقف اپنی مادر علمی کے برعکس ہے۔ اس کی وہ اور ان کے ماننے والے اپنی توضیح پیش کرتے ہیں۔ مگر جمہوریت اور پارلیمانی طرز حکومت پر ان کا موقف بڑا صاف اور واضح ہے، جس کا وہ بار بار اعادہ بھی کرتے ہیں۔ ایک منقسم سماج میں جہاں ایک طبقہ جمہوریت ہی کو نظام کفر سمجھتا ہے اور سیاست کو بدعت، وہاں پارلیمانی سیاست اور جمہوریت کی بقا کے لئے جمیعت علمائے اسلام کی جدوجہد کو فراموش کرنا ممکن نہیں۔ وہ آج بھی مذہبی انتہا پسندی اور سیکولر ازم کے درمیان رواداری اور اعتدال کی حد فاصل بنے کھڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی اور جمہوری قوتیں ان کی قیادت، بصیرت اور حکمت عملی پر اعتماد کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں۔

ہم مولانا کے سیاسی نظریات، فکر اور عقائد سے اختلاف رکھ سکتے ہیں مگر ملکی سیاست میں ان کی جمہوریت اور آئین کی بالادستی میں کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ان کی سیاست بھی تنقید سے مبرا نہیں کیونکہ پاکستان کے وہ علاقے جہاں ان کی جماعت کا حلقہ اثر ہے، پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ بھی ہے۔ وہاں شرح خواندگی کم اور خواتین معاشرتی جبر اور استحصال کا شکار ہیں مگر ان کی جماعت کی طرف سے یہاں ترقی اور سماجی تبدیلی کے لئے کوئی واضح حکمت عملی کبھی سامنے نہ آ سکی۔ مولانا کی سیاست قبائلی روایات اور جمہوریت کا ملغوبہ نظر آتی ہے۔ ان کے ساتھ کھڑے اہل منبر ان کی سیاست کو موقع پرستی سے مامور کرتے ہیں تو دوسری طرف جمہوریت کے علمبردار ان کو بنیاد پرست گردانتے ہیں۔

مولانا کی طرز سیاست، سیاسی حکمت عملی اور کردار سے قطع نظر وہ بات جس کی وجہ سے مجھ سا ایک لنڈے کا لبرل اور سیکولر شخص بھی ان کا معترف ہے وہ ان کے مکالمے کی خصوصیت ہے۔ انھوں نے عورت کی حکمرانی کے سوال پر فاطمہ جناح کو صدارتی الیکشن لڑانے اور بے نظیر بھٹو کے وزیر اعظم بننے پر دینی اور شرعی تاویلیں گھڑنے والی جماعت اسلامی سے اختلاف کرتے ہوئے جمہور کا ساتھ دیا تھا۔ اپنے حریف عمران خان پر ان کی اعلیٰ درجے کی تاریخ فہمی کے نتیجے میں ایک خاص نقطہ نظر سے گردانی گئی غلطیوں کو سیاسی مدعا نہ بنانے کی بلاول بھٹو جیسے مغرب سے تعلیم یافتہ نوجوان کی بات مان کر ایک بار پھر دلیل اور مکالمے کی اپنی روایت کو برقرار رکھا۔

گو کہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب پہلے دن سے موجودہ اسمبلیوں اور حکومت کو جعلی قرار دے کر فوری بائیکات کے حق میں تھے مگر حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے اصرار پر اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئے اور ایک طویل المدتی تحریک پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ یہ امر بھی ان کی مکالمے کو اپنے موقف پر ترجیح دینے کی خصوصیت کا آئینہ دار ہے، جو ہمارے ہاں مذہبی اور سیاسی حلقوں میں مفقود ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کی طاہر القادری یا خادم حسین رضوی سے مماثلت ڈھونڈنے والے اس س غلط فہمی کو دور کریں، کیونکہ انگریز استعمار کے دور سے سیاسی اور علمی میدان میں بر سر پیکار دار العلوم دیوبند کے سلسلے سے کسی فصلی بٹیرے کا کوئی موازنہ نہیں۔ ایوب، ضیا اور مشرف کی آمریت کا جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر عملی طور پر مقابلہ کرنے والے مولانا خوب جانتے ہیں کہ حریف کو کب للکارنا ہے اور کب چاروں شانے چت کر دینا ہے۔ ساتھ وہ اس بات سے بھی با خبر ہیں کہ ایک چھوٹی سی غلطی تاریخ میں ان کو کہیں ان حلقوں کی صف میں کھڑا نہ کردے، جن کے خلاف وہ ہمیشہ بر سر پیکار رہے ہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan