ایک لمحے کے تعاقب میں


کچھ لمحے لافانی ہوتے ہیں۔ فردوسی لمحے۔ وہ لمحے جن میں انسان قید ہو جاتا ہے۔ وہ لمحے جو تنِ تنہائی میں بھی مسرت کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ وہ لمحے جو پروں کے بغیر اڑان بھرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایک انوکھی روحانیت، ایک انوکھی راحت۔ وہ لمحہ بھی کچھ ایسا ہی تھا، جس نے مجھے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔ جس سے رہائی کا سوچ کر روح کانپ جاتی ہے۔

فطرت کے نظام میں کبھی ترتیب نہیں ہوتی لیکں اس بے ترتیبی میں ایک انوکھا حسن ہوتا ہے، اور اس حسن کی تلاش میں ابو زر کے ہم راہ ایک بار پھر محو سفر تھا۔ کلر کہار انٹر چینج سے اُتر کر چکوال روڈ پر سفر شروع کیا تو چند کلومیٹر کے فاصلے پر جلیبی چوک سے بیسٹ وے سیمنٹ فیکٹری کو جانے والے راستے پر سفر شروع کیا۔

اس سڑک پر کوئی تین کلومیٹر چلنے کے بعد دائیں جانب ایک سڑک نکلتی ہے جو موٹر وے کے نیچے سے گزر کر کلر کہار کی سب سے خوبصورت سیوک جھیل کو جانے والے ٹریک کو ملاتی ہے، جس پر پچھلے سال ایڈونچر کیا تھا لیکن بد قسمتی سے جہاں سے پیدل ٹریک شروع ہوتا ہے، وہاں تک پہنچتے پہنچتے شام ہو چکی تھی۔ یوں سیوک جھیل کو، پھر آئیں گے کہہ کر وا پس لوٹ آئے تھے۔ بیسٹ وے سیمنٹ فیکٹری کے بعد سڑک اکہری ہو جاتی ہے۔ کٹی پھٹی لیکن اس قابل ہے کہ آسانی سے اس پر سفر کیا جا سکے۔ چڑھائی دھیرے دھیرے بڑھتی ہے، اس لئے ڈرائیونگ میں کوئی زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔

میلوٹ ٹیمپل کے قریب پہنچ کر گاڑی کو ایک طرف پارک کیا۔ باہر نکلے تو منظر ہی بدلا ہوا تھا۔ گہرے بادل اور یخ بستہ ہواؤں نے جسم میں ایک سنسناہٹ پھیلا دی۔ ہزاروں سال پرانے ہیبت ناک  ٹیمپل کے آثار کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتے ہوئے جب دوسری طرف نکلا تو سفید چٹانوں کے اوپر سے گزرتے ہوئے قدموں کے نیچے سے جیسے چھت ختم ہو گئی ہو۔ سامنے جہلم کا وسیع و عریض ڈیلٹا تاریخ کے ہزاروں صفحوں کو اپنے اندر سموئے اپنی بے پناہ تاب ناکیوں کے ساتھ کسی آرٹسٹ کے کینوس کے مانند میری نظروں کے سامنے پھیلا ہوا تھا۔

ٹھنڈی یخ ہوا ایک عجیب پر اسرایت پیدا کر رہی تھی۔ میرے سامنے فطرت کی رعنائی اپنی بھر پور دل فریبی کے ساتھ مجھ پر ایک سحر طاری کر چکی تھی۔ جس میں بل کھاتی ندیاں اور موٹر وے ایک لکیر کی صورت دکھائی دے رہی تھی۔ تا حدِ نظر سر سبز و شاداب وادی پھیلی ہوئی تھی۔ ہواؤں کے سرد تھپیڑے کسی نظر نہ آنے والے ہیولوں کے مانند جسم کو سہلاتے اٹکھیلیاں کرتے کبھی سامنے سے دھکا دیتے تو کبھی پہلو سے۔

میں وادی کی طرف منہ کر کے ایک چٹان پر بیٹھ گیا۔ یہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان تنِ تنہائی میں مسرت محسوس کرتا ہے۔ امنگیں اور ولولے ایک ہجوم بپا کر دیتے ہیں۔ یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جو انسانی فطرت کی تاریخ رقم کرتے ہیں۔ انسانی احساسات کے گم شدہ گوشوں کو روشن کرتے ہیں۔ انسانی ذہن کی متضاد کیفیتوں کی  آماج گاہ کو ایک نقطے پر سمیٹ دیتے ہیں۔

میں سرشار تھا۔ ایک مدھر ترنگ سرشاری دکھا رہا تھا۔ پہلا لمحہ دوسرے میں ڈھل رہا تھا اور دوسرا تیسرے میں، تیسرا ایک احساس میں۔ میں ایک وجدانی کیفیت اور خود فراموشانہ محویت سے ایک جذبے میں ڈھل رہا تھا۔ اس جذبے کا کوئی نام نہیں تھا۔ جس جذبے کو آپ کوئی نام نہ دے سکیں، اس کو خوشی کہتے ہیں۔ روحانی خوشی۔

وہ لافانی لمحے تھے۔ وجدانی لمحے۔ وہ لمحے جن کا کوئی مول نہیں۔
وہ لمحے، جن کے اختتام پر احساسات کا ہجوم ہوتا ہے، نا قابل بیان ہیجان ہوتا ہے۔
امید، حزن، توقعات، ملال، حسن، اداسی، خوشی، سرشاری، جوش۔

جذبات و احساسات کا ہجوم ہوتا ہے جو انسانی وجود اور زندگی کے ضامن ہیں۔ وہ جذبات جن کے دم سے انسانی زندگی چل رہی ہے اور اپنے اپنے محور میں زندہ ہے۔ زندگی اسی کا نام ہے شاید، ہر جذبے کا احساس، اس کا ظہور اور اس ظہور کا احساس۔ انسانی زندگی کی معراج، شاید ان جذبوں کو زبان دینا ہے۔ احساسات کے اظہار کی لگن روز ازل سے انسان کے خمیر میں ہے۔ کیمرے سے قلم تک سفر کریں۔ خوش رہیں۔ احساسات لکھیں اور خوشی محسوس کریں۔

نوٹ: گہرے بادلوں اور نا مناسب روشنی کی وجہ سے کیمرا وہ مناظر قید کرنے میں یکسر نا کام رہا جو آنکھ محفوظ کر رہی تھی۔ اس لئے اس دِل فریب منظر کی عکاسی کے لئے قلم۔ کا سہارا لینا پڑا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).