پنجرے میں بند قیدی کی موت


قاہرہ کے آسمانوں پر ستارے تو روز ہی نکلتے تھے اور روز ہی خلقِ خدا کو خالق کی نا فرمانیوں میں مشغول دیکھ کر، اُداسی سے واپس لوٹ جاتے تھے۔ مگر اُس رات ستاروں کی آنکھوں میں صرف اُداسی کے رنگ نہیں تھے۔ اُن کی آنکھوں میں نمی تھی۔ دور دور تک آنسووٗں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ آسمان کی رنگت سیاہی مائل تھی اور یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ آسمان قہر کی صورت زمین والوں پر برس پڑے گا۔ لیکن ابھی اس کا حکم نہیں تھا اور ستاروں کو بھی اپنے آنسووٗں کو ضبط کرنا تھا۔

رات کا سفر نہایت آہستگی سے جاری و ساری تھا۔ قاہرہ کی جیل طرہ کے ایک کونے میں بیٹھا محمد مرسی نامی قیدی نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ تلاوت قرآن پاک میں مشغول تھا۔ محمد مرسی کی طبعیت صبح سے ہی ناساز تھی مگر یہاں اُس کی طبعیت کی خرابی کی پروا کس کو تھی۔ ویسے بھی وہ ایک خطرناک قیدی تھا اور خطرناک قیدیوں کی صرف حفاظت کی جاتی ہے۔ اُن کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ محمد مرسی کی پرسوز تلاوت جاری تھی کہ حکم آیا کہ اُس کی پیشی ہے۔

اُس قیدی سے جیل انتظامیہ کو بہت خطرہ تھا۔ اس لئے اُسے پنجرے میں بند کرکے عدالت میں پیش کیا جاتا تھا۔ قیدی نے ایک حسرت بھری نگاہ اس کال کوٹھڑی پر ڈالی۔ قرآن پاک کو سینے سے لگا کر طاق میں رکھا اور اپنے قدموں سے چل کر پنجرے میں داخل ہو گیا۔ پنجرے کو تالا لگا دیا گیا تھا۔ قیدی جو پہلے ہی دل کا مریض ہے۔ اُس کے سینے میں تکلیف کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے۔ کچھ ہی دیر میں وہ کمرائے عدالت میں موجود تھا، جہاں قاضیِ وقت کے سامنے اُس کے گناہوں کی فہرست پیش کی جا رہی تھی۔

اُس کا سب سے پہلا گناہ یہ تھا کہ وہ مصر کا پہلا نو منتخب جمہوری صدر تھا، اور صدر بھی ایسا جو نہ صرف پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھا بلکہ حافظِ قرآن بھی تھا۔ جو محمدﷺ کو اپنا لیڈر مانتا تھا۔ اُس کا دوسرا گناہ یہ تھا کہ وہ دنیاوی خداوٗں کے آگے جھکنا جانتا ہی نہیں تھا۔ گناہوں کی فہرست خاصی طویل تھی۔ جیسے جیسے عدالت میں موجود کٹھ پتلیاں با آوازِبلند اُس کے گناہوں کو دُہرا رہی تھیں۔ اُس کے درد کا دورانیہ بھی طویل ہو گیا تھا۔

اُسے بولنے کا موقع دیا گیا تھا مگر وہ کچھ بول نہیں پا رہا تھا۔ وہ چکرا کر گِر پڑا تھا۔ اُس نے آخری ہچکی لی تھی۔ اُدھر قاہرہ کے آسمان پر موجود ستاروں کا ضبط ٹوٹنے لگا تھا۔ قاہرہ کی زمین کے آنسو بھی آسمان کے ساتھ ہی شامل ہونے لگے تھے۔ محمد مرسی کی سانسوں کی ڈور ٹوٹ چکی تھی۔ اُس کی موت کی تصدیق ہو چکی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر پورے مصر میں پھیل جانی تھی۔ مرسی کا بیٹا بھی تو اُسی جیل میں قید تھا۔ اُسے بھی تو خبر کرنی تھی۔

وقتی خداوٗں نے فیصلہ کیا کہ شہید کو فجر سے پہلے خفیہ طور پر دفنا دیا جائے۔ مرسی شہید نے کبھی فجر قضا نہیں کی تھی۔ اُسے جنت میں جا کر فجر بھی تو پڑھنی تھی۔ مرسی شہید کی بیوہ اور بیٹوں کو اطلاع کر دی گئی تھی۔ موذن فجر کی اذان دینے کے لئے تیار تھا۔ ستاروں کی رخصتی کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ اُنہوں نے شہیدِ اسلام کو آنسووٗں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور خاموشی سے رخصت ہو گئے۔ فجر کی اذانوں کے ساتھ ہی شہید کا جنازہ طرہ کی اُسی جیل میں پڑھا گیا۔ سورج نے بوجھل دل کے ساتھ قاہرہ کے اُفق پر اپنی کرنوں کے اُداس رنگ بکھیر دیے۔ سورج طلوع ہو چکا تھا۔ شہید بھی اپنی آخری آرام گاہ میں مسکراتے ہوے اپنی قوم کو یہی پیغام دے رہا تھا کہ شہید کبھی نہیں مرتا اور وہ بھی پورے عالمِ اسلام کے لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).