آہستہ، آگے معیشت کی مرمت جاری ہے


سب لوگ اپنی رفتار آہستہ کر لیں، آگے ٹوٹی پھوٹی معیشت کی مرمت جاری ہے۔ ہمارے دساور سے درآمد کیے گئے ہنر مند آپ کے شاندار معاشی مستقبل کے لئے ہمہ وقت مصروف ہیں، ہارن بجا کر انہیں تنگ نہ کریں۔ آپ لوگوں نے چونکہ معاشیات کا گہرا اور بور علم حاصل نہیں کیا ہوا، اس لیے یہ مرمت کیسے ہو رہی ہے، اس پر زیادہ غور آپ کی صحت کے لئے نقصان دہ ہے، صرف یہ ذہن نشین کر لیں کہ یہ ملک معاشی طور پر ڈوب رہا تھا، ساتھ آپ بھی ڈوب رہے تھے، اب ایسا نہیں ہے۔ اب ہمارا ملک اگلے سال اڑھائی فی صد یعنی زکوٰۃ کی شرح سے ترقی کرے گا۔ کیا کہا، پہلے ترقی کی رفتار زیادہ تھی؟ ایسی باتوں سے ہمارے ہنر مندوں کو ذہنی اذیت پہنچتی ہے، ان سے اجتناب کریں۔ چلیں آپ کو سمجھا دیتے ہیں کہ ہم معیشت کی مرمت کیسے کر رہے ہیں۔

برآمدات:

پچھلی حکومتوں نے برآمدات بڑھانے پر توجہ نہیں دی اور یوں ہماری درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہوتی گئیں۔ ہمارے ماہرین نے پہلا مشورہ یہ دیا کہ ہم ڈالر کی قیمت مارکیٹ کو طے کرنے دیں۔ ہم نے روپے کی قدر کم ہونے دی تا کہ ہماری برآمدات بڑھ سکیں۔ کیا کہا، برآمد کیا کریں؟ بہت اچھا سوال کیا ہے لیکن یہ آپ لوگوں کا مسئلہ ہے کہ آپ سوچیں کہ آپ نے کیا برآمد کرنا ہے، ہمارے ماہرین نے ڈالر کی قدر بڑھا کر آپ کو اچھا ماحول مہیا کر دیا ہے۔

اس ملک میں جو کچھ پیدا ہوتا ہے وہ ہماری بائیس کروڑ کی آبادی بھوکوں کی طرح کھا جاتی ہے اور تم لوگوں کو لگتا ہے کہ تمہیں کچھ ایسا ہنر نہیں آتا اور نہ ہی تم کوئی ایسی چیز بناتے ہو جس کی دنیا میں مانگ ہو۔ ایسا بالکل نہیں ہے، آپ نے دنیا کو بتانا ہے کہ وہ ہم سے نصیبو لعل کے گانے خریدے، ملک کی خاطر ہم نصیبو سے فرمائشی پروگرام بھی کروا سکتے ہیں۔ مسواکیں کاٹ کر عرب ملکوں کو بیچیں، استنجا کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے اور گنے کے رس سے یرقان کا علاج کیسے کیا جا سکتا ہے، اپنا یہ علم دنیا کو برآمد کرکے خوب پیسے بناؤ۔ پاکستانیو، دنیا کی کوئی طاقت تم لوگوں کی ترقی کے آگے بند نہیں باندھ سکتی۔

درآمدات:

پاکستانیو، کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہ دنیا سے فضول اشیا خریدنا ترک نہ کر دے۔ ہم نے اپنی درآمدات کو کم کرنے کے لئے جہاں ڈالر کی قدر میں اضافہ کیا ہے، وہاں درآمدات پر بھاری ٹیکس بھی عائد کیا ہے۔ اب میک اپ کا سامان بند۔ معیشت کی طرح شاباش سب لوگ اپنی اصلی صورتوں میں نظر آو۔ نئے پاکستان میں جعلی طریقوں سے خوبصورت بن کر اپنے آپ کو دھوکا دینے پر پا بندی ہے۔ پرفیوم کی درآمد کی بھی اجازت نہیں ہے، بے شک تم سب لوگوں سے بد بو آئے۔

سب جانوروں سے بد بو آتی ہے، انسان کوئی نیارا جانور نہیں ہے کہ پرفیوم لگا کر گھومے۔ اب تم لوگ صحت مند رہنے کے لئے امریکن گارڈن کے دلیے بھی نہیں کھا سکو گے، وہ بھی ہم نے مہنگے کر دیے ہیں۔ سارا سارا دن ویلے بیٹھے رہتے ہو، دوڑا بھاگا کرو تا کہ صحت بہتر ہو، نئے پاکستان میں امریکہ کے دلیے کھا کر ڈالر اڑانے پر پابندی ہے۔

ہماری سب سے زیادہ ڈالرز پٹرول کی در آمد پر خرچ کرتے ہیں۔ تم لوگوں کی عیاشیاں ختم کرتے کرتے ساتھ پٹرول بھی مہنگا ہو گیا ہے۔ ہمارے معاشی ماہرین سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ اس مسئلے کا کیا حل نکالا جائے۔ خاموش، اونچی آواز میں بولنا منع ہے، اس سے ماہرین کے سوچنے کے عمل میں خلل پڑتا ہے۔

محصولات:

میرے پاکستانیو، وہ قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے جو خیرات دل سے دے لیکن اس سے ٹیکس زبردستی لینا پڑے؟ چونکہ دوسرے ملکوں میں عوام خوشی خوشی ٹیکس ادا کرتے ہیں اس لئے ٹیکس نکلوانے کے لئے ہمیں باہر سے ماہر بندہ نہیں ملا۔ ہمیں اپنے ملک سے ہی ڈھونڈھنا پڑا۔ یہ بندہ بہت عقلمند ہے، بس پاکستانیوں کی طرح بولتا بہت ہے۔ بولتے بولے کبھی کبھاراپنے آپ کو پارلیمنٹ سے اوپر لے جاتا ہے، برا مت مانا کرو۔ پارلیمنٹ نے اس کو قانون میں حق نہیں دیا کے ٹیکس چور سے ٹیکس لینے سے پہلے اس سے پوچھا جائے لیکن یہ آپ میں موجود ٹیکس چوروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے قانون کو لاتیں مار رہا ہے۔

ٹیکس آپ کے منتخب نمایندے عائد کر رہے ہیں، یہ ٹی وی پر آ کرکہتا ہے میں لگا رہا ہوں، اس کی باتوں کا غلط مطلب مت لیا کرو۔ ہمارا چیئرمین، ٹیکس امور کا ماہر ہے۔ کیا کہا، ”جس ملک میں تاجر ٹیکس نہیں دیتے اس ملک میں ٹیکس کا ماہر کیسے پیدا ہوسکتا ہے؟“ خبردار، ایسی باتوں سے ہمارے ماہرین کی بے عزتی ہوتی ہے۔ نئے پاکستان میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ میرے جواب پر مت ہنسو۔ اچھا، ٹیکس کیسے نہ دیا جائے یہ اس بات کا ماہر ہے، کر لو جو کرنا ہے۔

ہم چاہتے ہیں لوگ کرایہ، بینک کے منافع اور زمین کی خرید و فروخت جیسے فضول کاموں سے پیسہ کمانے کے بجائے ملیں لگائیں۔ اس لئے ہم نے اپنے پہلے لیکن اصل میں تیسرے بجٹ میں ان کاموں پر بھاری ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ کیا کہا، ”زمین کی قیمت گر جائے گی“۔ ہمارا ماہر کہتا ہے گرتی ہے تو گر جائے، میری بلا سے۔ ہم نے دنیا کی پروا نہیں کرنی، جہاں یہ سوچ ہوتی ہے کہ چونکہ بینک سے قرض زمین کو رہن رکھ کر لیا جاتا ہے اس لئے اس کی قیمت اچھی رہنی چاہیے، تا کہ تاجروں کو قرض مل سکے۔ ہم نے بینک سے قرض نہیں لینا، ہم ایک خود دار قوم ہیں۔

خرچ:

ہمارے ماہرین نے ہمیں بتایا ہے کہ ترقی کرنی ہے تو ہمیں اپنے خرچ کم کرنے ہوں گے ۔ ہم نے اپنے خرچ کم کر دیے ہیں۔ حکومت مہنگی بجلی خرید کر تم لوگوں کو جو سستی بیچتی تھی وہ بھی ختم۔ بجلی استعمال کرنی ہے تو پورے پیسے نکالو۔ یہ برقی آلات سے کھانا گرم کرنا اور جوس نکالنا نئے پاکستان میں نہیں چلے گا۔ ویسے بھی اب آپ کو جوس نکالنے کے لئے بجلی کی ضرورت نہیں پڑے گی، ہم ویسے ہی آپ کا نکال دیں گے۔ گیس کی بھی پوری قیمت دو۔

سستی گیس کی وجہ سے چار چار پراٹھے پکا کر کھا جانے جیسی فضول خرچی کا یہ ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ اپنی حفاظت خود کرنا سیکھو، پولیس کا خرچ ہم نے کم کر دیا ہے۔ زیادہ تھا تو کون سا چوریاں کم ہو گئیں تھیں۔ اپنے بچوں کو گھر میں پڑھاو، نئے سکول بننے بند۔ اچھا اور صاف ستھرا کھانا کھاؤ تا کہ ہسپتال میں دھکوں سے بچ سکو، صحت پر بھی خرچ ہم نے کم کرنا ہے۔

مہنگائی سے پریشان مت ہو۔ ہمارے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہی ملک ترقی یافتہ ہیں جہاں چیزیں مہنگی ہیں۔ تم لوگ پیپسی کی جو بوتل بیس روپے کی پیتے ہو ہو وہ برطانیہ میں ایک پاونڈ یعنی دو سو روپے کی ملتی ہے۔ تم جو گوشت چھے سو روپے کلو خریدتے ہو وہ امریکہ میں دو ہزار روپے کلو سے کم نہیں ملتا۔ تم جو کرنل باسمتی چاول دو سو روپے کلو خریدتے ہو، معلوم ہے اس کا ریٹ یورپ میں کیا ہے؟

آج سے آپ سب اپنے اندر مایوسی کی بتی بجھا کر امید کی کرن روشن کرلو۔ بس اپنی زندگی کی گاڑی کو تھوڑا آہستہ کرلو آگے معیشت کی مرمت کا کام جاری ہے۔ شور مچانا اور سیاسی گفتگو کرنا منع ہے، اس سے معاشی ماہرین کے کام میں خلل پڑتا ہے۔ سب خاموش ہوجاؤ۔ کیا کہا میں نے؟ چپ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).