آئنہ نما: فریب کار بانسری سے عشق ممنوع تک


مصنف۔ ظفر عمران
صفحات۔ 134
قیمت۔ 399 روپے
پبلشر۔ کستوری پبلشنگ ہاوس، راولپنڈی

افسانہ اردو ادب کا ایک خاصہ رہا ہے۔ اپنی بے پناہ مقبولیت کے باعث اردو افسانے، ہر زمانے اور عمر میں باعث تکریم ٹھہرے۔ چھہ عشروں کے بعد بھی اشفاق احمد کا ’’گڈریا‘‘ اور منٹو کا ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ آج بھی اردو ادب کی شان سمجھے جاتے ہیں۔ زمانے میں ہونے والی انقلابی سائنسی تبدیلیوں نے کسی حد تک اردو ادب کی اس صنف کو بھی متاثر کیا اور خاصے عرصے سے کوئی معیاری افسانوں کا مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا۔ اس خلا کو ’’ہم سب‘‘ کے جانے پہچانے مصنف ظفر عمران نے ایک دھواں دار انٹری کے ذریعے ”آئنہ نما“ سے پر کیا ہے۔

کتاب صرف آن لائن دستیاب ہے

چودہ افسانوں پر مشتمل اس مجموعے کی سب سے خاص بات اس کی سادہ زبان اور سہل اسلوب ہے۔ مصنف نے بلند بانگ محاوروں کا استعمال کیا ہے، نا ہی ثقیل الفاظ کے ذریعے قارئین پر اپنی زبان دانی کی دھاک بٹھانے کی کوشش کی ہے۔ ان افسانوں کا محور وہ ان کہی انسانی اشکال ہیں، جو جنسی اظہار پر عائد پا بندی کی وجہ سے اندر ہی گھٹ کر رہ جاتی ہیں۔ مصنف نے اس مشکل ترین مرحلے کو کمال چابک دستی سے عبور کیا ہے۔ وہ جنسی جذبات کے جوار بھاٹے کو اس مہارت سے بیان کرتا ہے، کہ کہیں بھی فحاشی کا گمان نہیں ہوتا اور محسوسات کے اس تلاطم کو ادبی چاشنی سے معمور کر کے آگے بڑھ جاتا ہے۔

اس کا پہلا افسانہ ”گھنٹی والی ڈاچی اور فریب کار بانسری“ قاری کی رگوں میں اپنی منفرد تکنیک اور مواد سے ایک سنسنی پیدا کر دیتا ہے۔ ایک عورت کے اولین جنسی تجربات، اسقاط اور اس کی کٹھنائیوں کا ذکر تو ہے ہی، قاری اس وقت سناٹے میں آ جاتا ہے جب اس عورت کا سگا باپ بھی اس سے ہم بستری کی خواہش کرتا ہے، نیز اس کو عملی جامہ پہناتا ہے۔ افسانے ”ایک پاکیزہ سی، گنہگار لڑکی“ ایک چونکا دینے والے اختتام ہر منتج ہوتی ہے۔ سب افسانوں میں سے یہ واحد افسانہ ہے، جس کا اختتام نہ صرف بہت چونکا دینے والا ہے، بلکہ ایک اخلاقی سبق بھی لئے ہوے ہے۔ افسانہ ’’من کا پاپی اور عشق ممنوع‘‘ ایک حد تک علامتی رنگ لئے ہوئے ہے، جس میں دو نوجوان مرد و زن اپنی نا آسودہ خواہشات کو معاشرے کے بنائے اصولوں کے ہاتھوں بے بس پاتے ہیں۔ ان کے اس جذباتی جوار بھاٹے کی افسانے کے ذریعے خوبصورت عکاسی کی گئی ہے۔

ظفر عمران زبان کے معاملے میں بہت حساس ہیں، اس لیے انہوں نے کتاب میں کچھ ایسی ”تصحیحات“ کی ہیں، جو کہ عوام میں اغلاط تصور کی جاتی ہیں۔ وہ لفظ گلستان کو گل ستان لکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ اسی طرح لفظ ’’دیہہ‘‘ کو انہوں نے ’’دیہ‘‘ لکھا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ وہ لفظ ’’کہہ‘‘ کو بھی ’’کہ‘‘ لکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ اس بارے میں تو ماہرین لسان ہی کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں لیکن عامتہ الناس میں اغلاط ہی تصور ہوں گی۔

افسانوں کی ایک قابل گرفت شے مصنف کی ذات کا کھل کر سامنے آنا ہے۔ جو قارئین مصنف سے فیس بک یا ذاتی طور پر منسلک ہیں، وہ ان افسانوں کی بڑی تعداد سے ظفر کی اپنی سابق تحریروں کے ذریعے ہی واقف ہیں۔ کچھ تو انہوں نے اپنی زندگی کے عام سے واقعات جیسے ”جھیل بنجوسہ کی تتلیاں“ اپنی زوجہ سے ہونے والی نوک جھونک (جس کو وہ تقریباً انہی الفاظ میں پہلے فیس بک پر لکھ چکے تھے) کو انہوں نے معلوم نہیں فکشن کی کس صنف میں گردانتے ہوئے کتاب میں شامل کیا ہے۔

”ایک کال گرل کی کہانی“ بھی وہ پہلے فیس بک پر حقیقی واقعے کے طور پر من و عن لکھ چکے تھے۔ ایک ادبی محفل میں ہونے والی تنقید بھی وہ پہلے فیس بک پر حقیقی واقعے کے طور پر لکھ چکے تھے، اس کو ”کار آمد“ کے ذریعے افسانے کا رنگ دیا گیا ہے۔ اگر مصنف نے ان حقیقی واقعات کو فکشن کا رنگ دے کر اپنی ذات کو ملفوف کرنے کی سعی کی ہے تو نا چیز کی رائے میں تو وہ اس میں نا کام رہے ہیں۔

افسانوں کا ایک اور قابل ذکر پہلو، ان کے اسلوب کا تنوع ہے۔ کچھ افسانے تو مکمل مکالمے کی صورت میں ہیں، جب کہ کچھ بیانیے کی صورت میں۔ اس تکنیک سے مصنف اپنے اسلوب کو ایک متنوع رنگ دینے میں کامیاب رہا ہے۔ اس کے علاوہ افسانوں میں جدید دور کی ایجادات جیسے وٹس ایپ وغیرہ کا بھی خاصہ ذکر ہے، جس سے جدید دور کا قاری اپنے آپ کو افسانوں سے بہت حد تک منسلک محسوس کرتا ہے۔

آخری تجزیے میں یہ کتاب ایک شان دار تجربہ ہے۔ ایک دلیر اور بے دھڑک تجربہ، جو معاشرے کی پا بندیوں اور گھٹن کے خلاف ایک احتجاج ہے۔ ان افسانوں کا بنیادی فلسفہ انسان کی اس آزادی میں پنہاں ہے، جو روایت اور پابندیوں سے متصادم ہے۔ ظفر عمران کو اس دلیر تجربے پر تہنیت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).