ورلڈ کپ: آصف اقبال، میں اور جھوٹی باتیں


کرکٹ کو میں کچھ عرصے سے فالو کرنا چھوڑ چکا تھا۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے، جس کا بیان یہاں لازم نہیں۔ کس ملک کی نیشنل ٹیم میں کون سے پلیئر ہیں، ٹورنا منٹ کے لیے کون سی ٹیم فیورٹ ہے، مجھے معلوم نہیں تھا۔ 4 جون 2009 کی شام مجھے کہا گیا تھا، کہ کل سے ٹی 20 ورلڈ کپ کی کوریج آپ کریں گے، تو ٹیموں کا احوال جاننے سے زیادہ، مجھے سیٹ لگوانے، اور دیگر انتظامات کی فکر تھی. رات گئے بہت سا کام نبٹا کر میں اگلے روز جلدی آنے کا سوچ کر گھر چلا گیا۔

اگلے روز دُپہر ہو گئی۔ شام ساڑھے چھہ بجے پہلا شو تھا اور ڈھیروں انتظام باقی تھے۔ بیچ میں کسی نے کہا، آصف اقبال آپ سے (پروڈیوسر سے) ملنا چاہتے ہیں۔ وہ حاجی روف کے کمرے میں بیٹھے تھے، تو مجھے وہاں جانے میں عار تھا۔ حاجی روف کے بارے میں مشہور تھا، کہ وہ ملازمین سے حقارت سے مخاطب ہوتے ہیں۔ اے آر وائے میں ہر کوئی ان سے بہت ڈرتا تھا۔ کئی بار کسی اینکر کی معمولی شکایت پر پروڈیوسر کو ڈانٹ پڑنے کے قصے زبان زِد عام تھے۔ میں نے سوچ رکھا تھا، جس دن حاجی صاحب کی طرف سے بلاوا آیا، اے آر وائے کے مین گیٹ کی راہ لوں گا۔ میں مزدور اور وہ سیٹھ، ہمارا آپس میں مقابلہ ہی کیا تھا۔ اے آر وائی کی راہ داریوں میں آتے جاتے ان پر نظر ضرور پڑتی تھی۔ ایک دو بار سلام بھی کیا لیکن وہ سلام کا جواب نہیں دیتے تھے، تو میں نے وہ رسمی سلام کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ آصف اقبال کے بلاوے پر میں نے شو ڈائریکٹر شیخ سعید کو بھیج دیا تھا، کہ وہ جا کے مل آئے۔

آصف اقبال جب کرکٹ سے رِٹائر ہوئے، تب ہم کم سِن تھے۔ اُن کا کھیل مجھے یاد نہیں ہے، لیکن بڑوں سے ذکر سن سن کے میں ان کا پرستار تو تھا۔ خاص طور پر یہ کِہ وہ وکٹوں کے بیچ میں بہت تیز دوڑا کرتے تھے۔ وکٹوں کے درمیان بھاگتے میرے ذہن میں آصف اقبال ہی رہے ہیں۔ کرکٹ کھیلتے میرے لیے رن آوٹ ہونا گالی جیسا تھا۔ شاید زندگی کے کھیل میں بھی ایسا ہی ہے۔

میں ٹی 20 ورلڈ کپ 2009ء کی کوریج کی شارپ سنگل کے لیے دوڑ رہا تھا، کہ حاجی روف کے کمرے کی طرف سے شیخ سعید کے ساتھ آصف اقبال آتے دکھائی دیے۔ ہمارے کام سے جڑے افراد یہ جانتے ہیں کِہ جب ہم کام کر رہے ہوتے ہیں تو بس کام ہی پر توجہ ہوتی ہے۔ اُس وقت ہم خود اسٹار ہوتے ہیں، چاہے سامنے کوئی کتنا بڑا اسٹار ہو، ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ میں ایک سابق کرکٹر سے بڑی چاہت سے ملا۔ آصف اقبال نے نہایت دھیمے لہجے میں کہا، انھیں ہر روز پروگرام سے پہلے فلاں فلاں اخبار کے اسپورٹس پیج چاہیے ہوں گی اور اسی طرح کی ایک دو باتیں، شاید یہ بھی پوچھا تھا کہ ظہیر (عباس) سے بات ہوئی؟ وہ کب آ رہا ہے؟ وغیرہ۔ میں نے دیکھا کہ جہاں جہاں سے آصف اقبال گزرتے ہیں، ہر کوئی مودب ہو جاتا ہے. مجھے خوشی تھی کہ آج بھی لوگ آصف اقبال کو نا صرف جانتے ہیں، بل کہ ماضی کے کرکٹ اسٹار کا احترام بھی کر رہے ہیں۔

وہ دن ایسے ہی بھاگ دوڑ میں گزر گیا تھا۔ کبھی سیلز ٹیم کے نمایندے سیٹ پر رکھی میز کے رنگ کو، کاغذ پر بنی میز کے شیڈ سے ملا کے دیکھتے تو کبھی کسی چیز پر اعتراض کر دیتے۔ سیٹ ڈِزائنر کا کہنا تھا، وہ کمپیوٹر کے رنگ ہیں، لیپ ٹاپ کی اسکرین اور طرح دکھاتی ہے، اور اصل میں یہ شیڈ نہیں آئے گا۔ شو شروع ہونے میں بہت کم وقت تھا۔ مایا کو بس پریشان ہونے یا پریشان کرنے کی آزادی تھی. میں نے بیزار آتے کہا، جب سیلز ٹیم نے پروڈکشن ٹیم سے مشاورت کیے بہ غیر پریزینٹیشن تیار کی ہے، تو انھی سے کہیں سب کچھ ویسا کر دکھائیں، جیسا کاغذ پر ابھارا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پروڈکشن ٹیم پروگرام ڈِزائن کرتی، اور سیلز ٹیم اسے بیچ کر آتی۔ لیکن کیا ہے کِہ ہر ٹی وی چینل میں گنگا الٹی بہتی ہے۔

مجھے یاد ہے ایم سی آر (ماسٹر کنٹرول روم) سے کاونٹ ڈاون شروع ہو چکا تھا اور ہم پینل میں بیٹھے لائٹ مین کو ہدایات دے رہے تھے، کہ لائٹ اس اینگل پہ فِکس کرو. آخری لمحات میں اسے کیمرے کے سامنے سے ہٹ جانے کو کہا گیا۔ چوبیس سے چھبیس گھنٹوں میں داخلی مسائل سے جھوجتے، ہم نے بہت بڑا کار نامہ سر انجام دے دیا تھا۔ شو آن ایئر ہوا تو میں مایا کے روم میں آیا کِہ دیکھوں، لائیو شو کے کلر کیسے آ رہے ہیں۔ وہاں سیلز ٹیم کا نمایندہ انتہائی اطمینان سے پاوں پسارے سوفے پر بیٹھا تھا۔ بہ جائے اس کے کہ داد دی جاتی، اس نے لائٹ پر کوئی سوال اٹھا دیا کہ اسکرین برائٹ نہیں. میں نے روانی میں کہ دیا، ریموٹ اٹھائیں اور مانیٹر کی برائٹنس بڑھا لیں۔ ظاہر ہے میری یہ بات اسے بری لگی ہو گی. مایا نے نہ جانے کیا کہا، جس کے جواب میں میں نے کہا، اگر اب سیلز ٹیم ہمیں بتائے گی کِہ لائٹنگ کیا ہوتی ہے، تو پھر انھی سے شو کروانا چاہیے تھا۔ خیر! ٹی وی چینلوں میں یہ معمول کی باتیں ہیں۔

ٹی 20 ورلڈ کپ 2009ء کی افتتاحی تقریب کے بعد ایک ہی میچ تھا۔ ہم پری میچ شو کر آئے تھے اور پوسٹ میچ تبصرے کے لیے دو تین گھنٹے کا وقفہ تھا. ظہیر عباس کسی کام سے چلے گئے تھے کِہ شو سے پہلے لوٹ آئیں گے۔ جب کہ ڈائریکٹر شیخ سعید، میں اور آصف اقبال بورڈ روم میں آ کے بیٹھ گئے۔ یہ پہلی بار تھا کہ آصف اقبال صاحب سے سکون کے لمحو‍ں میں بات ہو سکتی تھی۔ چھریرے بدن کے آصف اقبال بہت نرم لہجے میں، ٹھیر ٹھیر کے بات کرتے ہیں۔ ایسے میں ان کی شخصیت کا سحر دو چند ہو جاتا ہے۔ میں انھیں محض ایک کرکٹر سمجھ کر کرکٹ پہ بات کر رہا تھا، ان سے منسوب قصوں کا ذکر کر رہا تھا۔ کرکٹ سے میرا لگاو دیکھ کر وہ خوش تھے۔ میں ایسے بے تکلف ہو رہا تھا، جیسے ان کے بعد کرکٹ پر ایک میں ہی اتھارٹی ہوں۔ اس دوران میں، میں نے پوچھ لیا:
’’سر، آپ آج کل کیا کرتے ہیں؟‘‘
آصف اقبال نے حیران نظروں سے میری طرف دیکھا، جیسے میں نے کوئی اچنبھے کی بات پوچھ لی ہو. شیخ میرے بائیں ہاتھ کی کرسی پر بیٹھا تھا، میرا سوال سن کے وہ بھی مضطرب ہو گیا۔ مجھے ٹیبل کے نیچے اپنے پاوں پر شیخ سعید کے پاوں کا دباو محسوس ہوا، مجھے لگا کہ کچھ غلط ہو گیا ہے۔


’’کچھ نہیں! بس اے آر وائے کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں ہوں۔ یہی معاملات دیکھتا ہوں۔‘‘
میری لیے یہ خبر تھی، کہ آصف اقبال کرکٹر ہی نہیں، ہمارے سیٹھوں میں سے ایک سیٹھ ہیں۔ میں نے خجالت مٹانے کے لیے سوال بدل دیا۔
’’نہیں سر! میرا مطلب تھا، کہ آپ آئی سی سی کے ساتھ کچھ نہیں کرتے؟‘‘
’’یہیں سے وقت نہیں ملتا، اور پھر ایک عرصہ کرکٹ کو دیکھ لیا، اب آرام کرنا چاہیے۔‘‘

میری معلومات کا یہ احوال تھا، کہ میں جس ادارے کے لیے کام کرتا تھا، اسی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو نہیں جانتا تھا۔ میرے لیے آصف اقبال اول آخر کرکٹر تھے اور ہیں۔ یہ جان کر کِہ وہ ایک طرح سے ہمارے باس بھی ہیں، مجھ پر زرا رعب نہ پڑا تھا۔ ہاں اب یہ سمجھ آ گیا تھا، کہ آصف اقبال کو دیکھ کر ہر کوئی مودب کیوں ہوا جا رہا تھا۔

(جاری)

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran