ورلڈ کپ: مایا، آصف اقبال، میں اور جھوٹی باتیں


ٹی 20 ورلڈ کپ 2009 کی کوریج پر ہمارے شو کا ٹائٹل “اسپورٹس روم لائیو” تھا۔ میزبان اے آر وائے نیوز کے نیوز کاسٹر وسیم بادامی تھے۔ دوسرے یا تیسرے روز میں نے بادامی سے پوچھا، آپ کا یہ چشمہ، نظر کا ہے؟ تو بادامی نے کہا، نہیں۔ وہ چہرے مہرے سے نو عمر دِکھتے ہیں، تو اپنی عمر سے زرا بڑا دکھائی دینے کے لیے چشمہ لگاتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ بڑی عمر کا شخص خبریں پڑھتا ہو، تو ناظرین کو خبر معتبر لگتی ہے. الیکٹرانک میڈیا بشمول شو بز میں “تاثر” یا پرسیپشن کا خاصا عمل دخل ہوتا ہے. ایک شخص کے بارے میں یہ تاثر بن جائے یا بنا دیا جائے، کہ وہ ’’اعلا پائے کا‘‘ ادا کار، صحافی، مصنف، شاعر، موسیقار، ہدایت کار ہے، یا وہ کچھ بھی ہو، تو ہر ہر کوئی یہی کہنے لگتا ہے۔ اس کے اچھے کو تو اچھا، کم تر معیار کے کام کو بھی اچھا کہا جاتا ہے۔ ایسے میں کوئی اس کے کام کی خرابی کی طرف اشارہ کرے، تو تنقید اثر نہیں کرتی۔

گزرے وقتوں میں پرسیپشن بنانے کا ادراک کم کم کو تھا، آج کل سب پروفیشنل، پرسیپشن بنانے پر بہت محنت کرتے ہیں۔ جو ایسا نہیں کرتا، ظاہر ہے وہ دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے، یا وہ ایسا غیر معمولی صلاحیت کا مالک ہو، کہ اس کا کام اس کی شناخت بن جائے، جیسا کہ اردو زبان کا شاعر غالب ہے۔ پھر ہم میں، آپ میں کتنے ہیں، جنھوں نے غالب کو پڑھا ہے؟ ہم سبھی کہتے ہیں، غالب اردو کے عظیم تر شاعروں کی فہرست میں ٹاپ پر، میر سے زرا کم یا اوپر ہیں۔ غالب کی پرسیپشن آج بھی مضبوط ہے۔ چند ایک کے مرنے کے بعد ان کے بارے میں سبھی بھولنے لگتے ہیں، ان کی پرسیپشن بنانے والے کسی اور کی پرسیپشن بنانے لگتے ہیں۔ تو حق یہ ہے کہ کسی کا کام ہی اسے باقی رکھتا ہے۔

گر چہ میرا شمار غیر معمولی افراد میں نہیں کیا جا سکتا، لیکن اے آر وائے نیوز اِنفو ٹینمنٹ ڈپارٹ منٹ میں میرے سینیئر مجھ پر اتنا اعتماد کرتے تھے، کہ میری یہ پرسیپشن بن گئی تھی، میں مشکل سے مشکل ٹاسک آسانی سے پورے کر لیتا ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ میری سنگل کیمرے پہ شوٹ کی تربیت تھی. نیوز روم یا اسٹوڈیو ورک جہاں ایک سے زائد کیمرے نصب ہوں، سنگل کیمرا ورک کے مقابلے میں بچوں کا کھیل ہوتا ہے۔

شو بز میرا اصل میدان تھا، اور میں نیوز چینل کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا تھا۔ اپنی ملازمت سے اکتاہٹ کی ایک وجہ یہ بھی تھی اور دوسری وجہ یہ کہ میں کبھی سولہ اٹھارہ گھنٹے، تو کبھی چھتیس چھتیس گھنٹے آفس ہی میں گزار دیتا تھا۔ جب تک کام میری مرضی کے مطابق مکمل نہ ہو، مجھے چین ہی نہیں پڑتا تھا۔ اب میں سمجھا ہوں، کہ انسان کو ایک زندگی ملتی ہے، اسے یہ زندگی ہر وقت کام کرتے نہیں گزارنی چاہیے۔ جہاں ہم موجود نہیں ہوتے، وہاں کا نظام بھی چلتا رہتا ہے اور بہ تر چلتا ہے۔ آدمی کی روز مرہ میں ایک توازن ضروری ہے۔ کام اتنا ہی کیا جائے، جو گھریلو یا ذاتی زندگی، یا تفریح کو متاثر نہ کرے۔ پھر یہ بھی نہیں کِہ آدمی ہر وقت تفریح میں پڑا رہے اور کام کہیں گم ہو کے رہ جائے۔

جیسا کہ میں نے ابتدا میں لکھا، میں اے آر وائے کی ملازمت سے اکتا چکا تھا اور پنجرہ توڑنے کے بہانے تلاش کرتا رہتا تھا، تو اسی مایا سے بات بات پر الجھ جاتا، جو مجھے ہر موقع پر آگے آگے کرتی تھی۔ بعض اوقات وہ میرے رویوں پر حیران ہوتی تھی، کہ اسے ہو کیا گیا ہے۔

آصف اقبال سے میری خوب گاڑھی چھن رہی تھی۔ وہ مجھ سے بہت پیار سے پیش آتے۔ جب کہ یہ ذکر ہو چکا کہ باقی عملہ ان کے سامنے گھبرایا رہتا تھا کہ کسی بات پر وہ ناراض نہ ہو جائیں. کیوں کہ وہ باس کے بھی باس تھے۔ شیخ سعید نے بتایا تھا، کہ جب وہ میرے بھیجنے پر حاجی روف کے کمرے میں گیا تھا، تو آصف اقبال، حاجی صاحب کی کرسی پر بیٹھے تھے، جب کہ حاجی روف ان کے سامنے بھیگی بلی بنے۔ آصف اقبال، حاجی روف کے بڑے بھائی حاجی عبد الرزاق یعقوب کے قریبی تھے. بعضوں کی معلومات میں اضافہ کرتا چلوں کہ “اے آر وائے” عبد الرزاق یعقوب نام کے پہلے پہلے حروف ہیں. سلمان اقبال انھی عبد الرزاق یعقوب کے سپوت اور حاجی روف کے داماد ہیں۔

ٹورنامنٹ انگلستان میں ہو رہا تھا، تو میچ پاکستانی وقت کے مطابق شام کو ہوتے تھے، دوسرا میچ رات ساڑھے دس یا گیارہ بجے کے قریب مکمل ہوتا تھا۔ میچ سے پہلے میچ کے بعد کے تبصروں کے بیچ ہم بورڈ روم میں آ کے بیٹھ جاتے تھے۔ مایا یوں تو پانچ بجے آفس چھوڑ جاتی تھی، لیکن ان دنوں سات یا آٹھ بجے تک بیٹھتی تھی، کیوں کہ باس (آصف اقبال) جو دیر تک وہاں ہوتے تھے۔ نوکری میں دفتر میں دیر تک حاضری بھی قابلیت شمار ہوتی ہو گی، گر چہ خامی ہے۔

مایا کے کمرے کے ساتھ ہی بورڈ روم تھا۔ ایک دن آصف اقبال (شاید) اسٹوڈیو کے اے سی کی کم کولنگ پر بات کر رہے تھے کہ میں نے دبے لفظوں میں انتظامی معاملات پر شکوہ کر دیا، کہ یہاں ہر شعبہ دوسرے شعبے کو حقیر سمجھتا ہے، یا پروڈکشن کے کام میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ میں ہر شو کے بعد رپورٹ میں لکھتا ہوں، ’’حسب معمول اے سی کام نہیں کر رہا‘‘، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ آصف اقبال نے میری امیجیٹ باس مایا کے بارے میں سوال کر دیا کہ وہ تعاون نہیں کرتی؟

میں مایا کے لیے کچھ برا نہیں کہنا چاہتا تھا، اگر چہ میرے شکوے تھے کہ وہ اچھی باس نہیں ہے۔ میں تذبذب میں تھا، کہ دھڑ سے بورڈ روم کا دروازہ کھلا اور مایا اندر داخل ہوئی۔ اس نے آصف اقبال سے کوئی بات کی. میں، شیخ سعید اور آصف اقبال تینوں ہی حیران رہ گئے کہ عین وقت پر مایا کیسے آ گئی، ہو نہ ہو ہماری باتیں سن رہی تھی۔

آصف اقبال نے انگریزی میں پوچھا، ’’مایا آپ ہماری باتیں سن رہی تھیں؟‘‘ مایا کا رنگ فق ہو گیا. گڑبڑا کے انکار کیا۔ مایا چلی گئی تو آصف اقبال نے مجھ سے کہا، ظفر یہاں جو ہوتا ہے، آپ کہنا چاہیں تو مجھ سے کہیں۔ یہ نہیں کہ ابھی، آپ میرا پرسنل نمبر نوٹ کریں، میں (انگلستان) چلا بھی جاوں اور جب جب چاہیں، مجھے کال کر کے بتائیں۔

مایا سے مجھے ہزار شکوے بھی ہوتے، تو بھی چین آف کمانڈ توڑ کے آصف اقبال سے نہ کرتا۔
(جاری)

ظفر عمران
اس سیریز کے دیگر حصےورلڈ کپ: مایا، میں اور کچھ جھوٹی باتیں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran