اے پی سی کا میلہ بلاول نے لوٹا


اچکزئی صاحب اور اسفند یار ولی صاحب کی بات دوسری ہے، نمایاں پہلو یہ ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں مریم صفدر صاحبہ نے مولانا کی مکمل اور غیر مشروط تائید کی! آخر دونوں میں کیا قدر مشترک ہے؟ جواب کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ دونوں کی عمران خان سے دشمنی ہے۔ صرف دشمنی نہیں! نفرت! شدید نفرت! سیاست میں مخالفت تو عام ہے اور کبھی کبھی دشمنی بھی۔ مگر نفرت کا سکِہ کم ہی چلتا ہے! مولانا کو اور مریم بی بی کو عمران خان سے نفرت ہے!

اتنی کہ اس نفرت کو دریا میں ڈالا جائے تو بہتا ہوا پانی کھولنے لگے! نفرت کی وجوہات، تاہم، الگ الگ ہیں! مولانا عشروں کے بعد اقتدار کی غلام گردش سے باہر ہوئے۔ انہیں قلق ہے۔ بہت زیادہ قلق! انہوں نے ہر خاص و عام کو باور کرا دیا تھا کہ وہ سیاست کے افلاطون ہیں اور عملیت پسندی (Pragmatism) کے ماہر۔ چاروں شانے چت ہونے کے بعد اب وہ سخت طیش میں ہیں اور پوری اسمبلی کو ہلاک کرنے کے درپے۔ خواہ اس میں لخت جگر کی رکنیت ہی کیوں نہ کام آ جائے۔

مریم صفدر کی نفرت اقتدار کے لئے نہیں! بنیادی طور پر اپنے والد کی آزادی اور سلامتی میں اقتدار بھی ایک حد تک شامل ہے مگر فرض کیجیے، میاں صاحب زنداں سے نکل کر ارض موعود Promised Landیعنی لندن سدھار جاتے ہیں تو مریم بی بی کے دل میں چھلکتا زہر، بہت حد تک کم ہو جائے گا۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ مریم بی بی نے صدیوں کے تجربے پر مشتمل یہ کہاوت ایک بار پھر درست ثابت کر دی ہے کہ آخر میں بیٹیاں ہی کام آتی ہیں۔

سیاست کو ایک لمحے کے لئے ایک طرف رکھ دیجیے۔ مریم ایک ایسی بیٹی کا کردار ادا کر رہی ہیں جو اپنے والد کی تکلیف پر تڑپ رہی ہے، مضطرب ہے اور کسی بھی قیمت پر انہیں آزاد اور پُرسکون دیکھنا چاہتی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں جب انہوں نے مطالبہ کیا کہ نیب کے قیدیوں کو سیاسی قیدی قرار دیا جائے تو اس کے پیچھے بھی والد کی محبت تھی۔ فرض کیجیے، حسن اور حسین نواز پاکستان میں ہوتے اور مریم لندن میں۔ تو موجودہ حالات میں مریم لندن بیٹھنے پر کبھی اکتفا نہ کرتیں۔

بیٹے بھی ماں باپ کے لئے سب کچھ کرتے ہیں مگر مریم نے بیٹیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ یہ لڑائی ملک کے لئے ہے نہ قوم کے لئے۔ جمہوریت کے لئے ہے نہ ترقی کے لئے۔ یہ خاندان کے لئے ہے۔ پشت پر بے حساب دولت ہے اور وسطی پنجاب کی حمایت! اب دیکھنا یہ ہے کہ فیصلہ ساز قوتیں اس ضمن میں کیا کرتی ہیں۔ ہمارے کلچر میں جب معاملہ ایک خاتون سے پڑ جائے تو عام طور پر قواعد اور انصاف پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور رحم اور عزت، رکھ رکھاؤ اور وضع داری آڑے آ جاتی ہے!

مگر اے پی سی کا میلہ بلاول نے لوٹا۔ جب دشمنی چکانے کے لئے مذہب کو استعمال کیا جانے لگا تو بلاول خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا اور مذہب کا کارڈ کھیلنے سے انکار کر دیا۔ صاف انکار! روایت یہ ہے کہ اس پر جو ردعمل سامنے آیا وہ غیظ و غضب میں لتھڑا ہوا تھا۔ یوں بھی مذہبی کارڈ حبِ علیؓ کے لئے نہیں، بغض معاویہؓ کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا کہ کسی نہ کسی طرح دشمن کو کچلا جائے! اس کالم نگار کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان میں مذہب کو سیاست اور تجارت کے لئے ایندھن کے طور پر برتا جا رہا ہے۔

(اس وقت بات سیاست پر ہو رہی ہے! تجارت کے حوالے سے پھر کبھی سہی) غور کیجیے! مذہبی جماعتیں عقائد کی بنیاد پر سیاست کر رہی ہیں اور ووٹ مانگ رہی ہیں۔ مولانا ساجد میر اہل حدیث جماعت کے امیر ہیں اور اسی بنیاد پر سینیٹر بن جاتے ہیں۔ مولانا نورانی کے خلف الرشید بریلویت کے نام پر سیاست کر رہے ہیں، مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق مرحوم کی جماعتیں دیو بندی عقاید کی علم بردار ہیں اور یہی ان کے سیاسی گروہوں کا طرّہ امتیاز ہے۔

تحریک لبیک نے الٹرا بریلوی بنیادوں پر پچھلا الیکشن لڑا۔ ایک امیدوار جب انتخابات میں حصہ لیتا ہے تو ووٹرز سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ اپنے حلقے کی ترقی کے لئے جدوجہد کرے گا۔ ترقیاتی کام کرائے گا۔ سکول کالج بنوائے گا۔ سڑکیں پختہ کرائے گا۔ بے روزگاروں کو ملازمتیں دلوائے گا۔ یہی پارلیمنٹ کا کام ہے جہاں امیدواروں نے کامیاب و کامران ہو کر بیٹھنا ہے اور آئین سازی کرنی ہے۔ اب اگر کوئی امیدوار اس بنیاد پر ووٹ مانگتا ہے کہ وہ شیعہ ہے یا وہابی یا بریلوی یا دیو بندی تو پھر اس سیاست پر اور اس طرزِ سیاست پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے!

ستر برس سے اس ملک میں مذہب کے نام پر اور مذہبی بنیادوں پر سیاست ہو رہی ہے۔ دنیاوی ترقی تو کیا ہونا تھی، فرقہ واریت کا زہر پورے جسم میں پھیل چکاہے! یہ تجربہ مکمل طور پر ناکام رہا۔ مذہب زندگیوں سے نکل گیا اور مذہبی جماعتوں کے سیاسی پرچموں میں آ گیا۔ جھوٹ، وعدہ خلافی، ملاوٹ، چور بازاری، ٹیکس چوری عام ہو گئی ہے۔ ملک کے اندر ہم ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے اور ملک سے باہر ہم پر اعتبار کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں!

اکلِ حرام اس قدر عام ہو گیا ہے کہ ملازمین پوری تنخواہ وصول کر کے، وقت پر آتے ہیں نہ وقت پر جاتے ہیں، نہ ہی آج کا کام آج کرتے ہیں۔ یونین بازی نے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی کارکردگی ختم کر کے رکھ دی ہے۔ اس صورتِ حال کا حل صرف ایک ہے کہ مذہب کو سیاست اور تجارت سے نکال کر زندگیوں میں جاری و ساری کیا جائے۔ بجائے اس کے کہ میں اپنے عقیدے کی بنیاد پر کسی خاص پارٹی کو ووٹ دوں، مجھے یہ دیکھنا چاہیے کہ صبح سے شام تک میں اسلام کو اپنے اعمال کی کسوٹی بناتا ہوں یا نہیں!

دفتر دیر سے پہنچوں، کام نہ کروں، سائل کو اذیت دوں، بازار میں کم تولوں، جھوٹ بول کر سودا بیچوں، اسمبلی میں پہنچوں تو اجلاس سے غیر حاضر رہوں اور حاضر ہوں تو سویا رہوں، وزیر بنوں تو ہفتے میں ایک دن دفتر آؤں، رشتہ داروں کے حقوق ادا کروں نہ ملازموں کے، دوسروں کا حق ہڑپ کر جاؤں، اس سیہ کار اور ملعون طرزِ زندگی کے ساتھ ووٹ اگر میں جمعیت علماء کو دوں یا تحریک لبیک کو، یا جماعت اسلامی کو یا کسی اور مذہبی جماعت کو، تو سچ یہ ہے کہ میں پرلے درجے کا منافق ہوں اور میرا مذہب سے دور کا تعلق بھی نہیں!

ستر برس کے دوران مذہب کے نام پر سیاست کر کے جو نتیجہ نکلا ہے وہ سب کے سامنے ہے! اب مذہب کو نجی معاملہ بھی بنا کر دیکھ لیجیے۔ جس ملک کے وزیر اعظم کی طرز رہائش کو حافظ سعید صاحب جیسا کٹر مسلمان عدالت میں مثال بنا کر پیش کرتا ہے اور جس ملک کے باشندوں کے حوالے سے مولانا طارق جمیل صاحب جیسا مبلغ یہ کہتا ہے کہ اپنے اعمال ہمیں دے دو، اُس ملک میں اور اس جیسے دوسرے ملکوں میں مذہب ذاتی معاملہ ہے۔ وہاں جھوٹ بولا جاتا ہے نہ وعدہ خلافی کی جاتی ہے۔

ڈیوٹی پر ایک منٹ تو کیا، ایک سکینڈ تاخیر سے پہنچنے کا رواج نہیں! یہاں تک کہ کام کے دوران ذاتی میل دیکھنے اور مہمانوں کی خاطر مدارت کا بھی تصور نہیں! طرفہ تماشا یہ ہے کہ وہاں مذہب کے نام پر کوئی ووٹ مانگتا ہے نہ لیتا ہے۔ اسی لئے وہاں صادق خان لندن کا میئر بن جاتا ہے، ساجد جاوید برطانیہ کا وزیر داخلہ بن جاتا ہے۔ ہرجیت سنگھ سجّن کینیڈا کا وزیر دفاع بن جاتا ہے اور حلیمہ یعقوب سنگا پور کی صدر بن جاتی ہے۔ مذہب کو نجی معاملہ قرار دینے کو دل نہیں مانتا تو نہ قرار دیجیے۔ بسم اللہ! مذہب کے نام پر سیاست کرتے رہیے مگر پھر کردار اور اخلاق بھی سنگا پور، برطانیہ اور کینیڈا جیسے پیدا کر کے دکھائیے!
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).