افواہوں کے شہر کی دلہن


ویسے تو اس شہر کے لوگ بہت نیک تھے۔ وہاں کی مسجدیں نمازیوں سے بھری رہتی تھیں۔ زیادہ تر تاجر طبقہ اس شہر کا باسی تھا۔ لوگ باریش تھے اور ان کے ماتھوں پر محرابیں تھیں۔ پھر بھی شہر میں اضطراب تھا اور ایک بے نام افراتفری تھی جس کو دیکھنے کے لئے گہری بصیرت کی ضرورت تھی۔ میں ان لوگوں سے بہت متاثر تھا۔ شاید اس کی وجہ میرا مذہبی بیک گراونڈ ہو یا اس کی وجہ کچھ اور رہی ہو، میرا کام اگرچہ مریض دیکھنا اور لوگوں کی جسمانی مشکلات کو کم کرنا تھا۔ مجھے لڑائی جھگڑے کے کیسوں میں میڈیکولیگل رپورٹ بھی جاری کرنی پڑتی تھی اور قتل و غیر قدرتی اموات کی صورت میں پوسٹ مارٹم بھی میری ذمہ داری تھی۔ یہی دونوں ذمہ داریاں مجھے لوگوں کے رویے نظر میں رکھنے پر مجبور کرتی تھیں۔

کچھ ہی دنوں میں مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہاں منافقت بہت زیادہ ہے۔ لوگ منہ کے میٹھے ہیں، اندر سے کڑوے اندر بغض و کینہ سے بھرے ہوئے۔ ہوا یوں کہ ایک خاتون جس کا لڑائی میں سر پھٹ گیا تھا، ایمرجنسی میں لائی گئی۔ علاج کے ساتھ اس کہ پولیس رپورٹ بھی بنانی تھی۔ حکیم جمن اس کا سفارشی تھا۔ حکیم صاحب کوئی وزیر شزیر نہیں، میرا دوست تھا اور دوستی کی وجہ وہ شربت صندل اور بادام تھا جو اس نے تحفتاً مجھے بھیجا تھا۔ حکیم جمن اس شہر کا مشہور حکیم تھا۔

اس کے ٹھنڈے شربت اور گرم کشتے پورے علاقے میں مشہور تھے۔ عمر خضر پائی تھی۔ نوّے سال کی عمر میں بھی چاق و چوبند تھے اور کشتوں کے زور پر چوتھی شادی چلائے کھڑے تھے۔ میں نے تو حقیقت بر مبنی رپورٹ بنادی تھی لیکن شہر میں کچھ اور طرح کی افواہیں گردش کر رہی تھیں۔ کچھ ہی دنوں میں اسلم رحمانی جو اینٹوں کے بھٹے کا مالک تھا، مجھے ملا اور الزام لگایا کہ میں نے حکیم سے مل کر زخمی عورت کی جعلی میڈیکل رپورٹ بعوض پچیس ہزار روپے بنائی ہے۔

اس عورت کو لڑائی میں تو کوئی زخم آیا نہیں تھا۔ حکیم کے کلینک پر اس کا زخم بنایا گیا اور میں نے پیسے لے کر اس کی رپورٹ بنادی۔ میں نے حکیم سے استفسار کیا تو وہ صاف مکر گیا بلکہ کہنے لگا کہ، رحمانی پولیس ٹاوٹ ہے۔ حکیم جمن اور رحمانی، دونوں سفید ریش بزرگ تھے لیکن جھوٹ کے پکے تھے۔ قسمیں کھا گئے۔ میرے ایک جاننے والے دوست نے، کہ مقامی تھا اور خود بھی باریش تھا، بتایا کہ یہاں داڑھی کے بغیر لوگوں کا کاروبار نہیں چلتا۔ یہاں قسم اٹھانا عام سی بات ہے۔ دکاندار قسم اٹھا کر گاہک کو بتاتا ہے کہ پانچ سو روپے اس کی قیمت خرید ہے اور پھر بھاؤ تاؤ کرکے وہی چیز چار سو میں بیچنے پر تیار ہو جاتا ہے۔

اس شہر میں افواہیں تیزی سے پھیلتی تھیں۔ چند ہی دنوں میں سارے شہر میں لوگ باتیں کرنے لگے کہ ڈاکٹر نے پیسے لے کر جعلی پولیس رپورٹ بنا دی ہے۔ ایک امام صاحب نے تو جمعے کے خطبے میں مجھے رشوت خور جہنمی قرار دے ڈالا۔ یہ امام بھی انہی منافقوں کا سردار تھا، جس کی چاہتا پگڑی اچھال دیتا، جسے چاہتا بے عزت کر دیتا اور چندہ دینے والوں کی اتنی تعریف کرتا جیسے اس کا باپ ہو۔ ہمارے ملک میں امام صاحبان جمعہ کے روز خدا بنے ہوتے ہیں، لاوڈسپیکر ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ہماری ناقص دینی معلومات کا فائدہ اٹھا کر وہ ملاوٹ کرتے ہیں کہ اچھے خاصے میٹھے دین کو زہر بنا ڈالتے ہیں۔ ہمارے دلوں میں نفرت بھرنے کا ذمہ دار ہمارا اپنا ان پڑھ مولوی ہے۔ میں نے اپنے اسی دوست کے ذریعے امام صاحب سے معلومات لیں تو پتہ چلا حکیم صاحب نے امام مسجد کو یہ خبر مرچ مصالحہ لگا کر لیک فرمائی تھی۔

میرے اسی دوست کی بیوی بیمار ہوگئی۔ میں نے اپنے ہسپتال کی لیڈی ڈاکٹر کو اس کی سفارش کردی۔ یہ ایک عام سی بات تھی۔ میری سفارش کی وجہ سے لیڈی ڈاکٹر نے اچھے طریقے سے اسے چیک کیا اور فیس بھی نہیں لی۔ کئی دنوں بعد ایک شام لیڈی ڈاکٹر مجھے اس دوست کی شکایت کرنے آگئی۔ مجھے بڑی حیرانگی ہوئی۔ وہ صاحب کچھ دن تو بیگم کے ساتھ آتا رہا، پھر وہ بہانے بہانے بیگم کی طبیعت کا بتانے اور مشورے لینے اکیلے آناشروع ہو گئا۔

آخر کار لیڈی ڈاکٹر سے اظہار محبت پر اتر آیا۔ لیڈی ڈاکٹر نے میرا خیال کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی تو وہ اور آگے بڑھنے لگا جس پر لیڈی ڈاکٹر کو گارڈ بلانا پڑا۔ مجھے بہت شرمندگی ہوئی اور میں نے اپنے اس دوست کو بلا کر سخت الفاظ میں لعنت ملامت کی اور آئندہ ہسپتال آنے سے باز رہنے کو کہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لیڈی ڈاکٹر کے متعلق شہر میں افواہیں گردش کرنے لگیں۔ اس کے بارے مشہور کردیا گیا کہ وہ غیر قانونی اسقاط کرنے کے دھندے میں ملوث ہے۔

ہر چوتھے پانچویں دن اسی طرح کی کوئی نئی خبر کسی نئے الزام کے ساتھ سننے کو ملتی۔ اتفاق سے انہی دنوں ہسپتال میں ایک خاتون کی مرگ ہوگئی۔ حمل کے دوران اس کا بلڈ پریشر شوٹ کر گیا تھا۔ وہ شدید بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال لائی گئی تھی۔ موت نے اسے کسی بڑے ہسپتال ریفر کرنے کا موقع تک نہیں دیا۔ اس کے علاج کی لیڈی ڈاکٹر نے پوری کوشش کی تھی۔ شہر کے بچے بڑے اور بزرگ سب اکٹھے ہوئے اور ہسپتال پر حملہ کر دیا۔ کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے عملے کے لوگوں کو یرغمال بنا لیا، چھ گھنٹے تک عملے کے لوگ محبوس رہے، اس دوران داخل مریض بھی عملے کے ساتھ یرغمال بنے رہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2