مینوں لے چلو اوئے لاہور


2017 ء کے دوران انڈین پنجابی سینما سے ریلیز ہونے والی فلم ”لاہوریے“ کے ایک مشہور ڈائیلاگ ”او مینوں لے چلو اوئے لاہور“ کو لکھتے وقت فلم کے ڈائریکٹر و لکھت امبردیپ سنگھ نے شاید یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ان کا لکھا یہ ڈائیلاگ بٹوارے کے درد کی عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کی کسی کہانی میں بھی نوحے کا کام کرسکتا ہے۔

فلم میں تو اس ڈائیلاگ کی حقیقت یہ تھی کہ 1947 ء کے بٹوارے میں پاکستان سے انڈیا اور انڈیا سے پاکستان ہجرت کرنے والے کئی ایسے خاندان یہاں سے وہاں ہوئے جن کے لبوں سے آخری دم تک اپنی مٹی میں دفن ہونے کی خواہش رہی۔

انڈیا فیروز پور سے ہجرت کر کے آنے والے پاکستان میں فیروز پوریے اور لاہور سے ہجرت کر کے انڈیا جانے والے لاہوریے کہلائے۔ اسی منظرنامہ پر بنی اس فلم ”لاہوریے“ میں لاہور سے ہجرت کرکے انڈیا (پنجاب) آکر آباد ہونے والے ایک سردار صاحب اپنی زندگی میں ایک دفعہ لاہور کو جی بھر کر دیکھنے کی خواہش کا ارادہ رکھتے ہیں اور لاہور کا ذکر سنتے ہی اپنے جذبات کی غمازی کرتے ہوئے التجائی اور غمگین آواز میں اپنے اپنوں سے کہتے ہیں

” مینوں لے چلو اوئے لاہور“۔ ایک گہرا درد محسوس ہوتا ہے ان کے اس جملے میں۔

تاہم موجودہ دور میں بھی یہ درد کہیں نہ کہیں ویسا ہی گہرا نظر آتا ہے اور یہاں بات ہو رہی ہے پاکستان کے پنجاب کی جہاں ہمارا شہر بھی پنجاب کے دیگر باقی چھوٹے شہروں کی طرح ابھی تک تمام تر طبی سہولیات میں خودکفیل نہیں ہوا۔

یہاں معمولی کھانسی اور بخار کی ادویات تو موجود ہیں لیکن موت و حیات کی جنگ لڑتے مریضوں کو زندگی دینے والی دوائی صرف لاہور سے حاصل کرنے کی تجویز دی جاتی ہے۔

عمومی چیک اپ کے بعد ڈاکٹرز حضرات میں ایک فقرہ خاصا مقبول ہے۔ ”ایہنوں لاہور لے جاؤ“ لیکن بدقسمتی سے ان کے اس فرمان کے بعد لاہور پہنچتا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

امین صاحب کی عمر بھی کوئی ساٹھ کے لگ بھگ تھی۔ میں انہیں اکثر دوپہر 12 بجے کے قریب سر پر سبز ٹوپی اور گلے میں صافہ لے کے سبزی کی دکان پر دیکھتا۔ خوش شکل اور خوش مزاج امین صاحب جہاں مل جاتے وہیں حال احوال پوچھنے کے بعد گپ شپ کے لیے کوئی نہ کوئی موضوع ڈھونڈ لیتے۔ کبھی ان کی باتیں بدلتی دنیا کے رنگ ہوتے تو کبھی وہ سیاست پر طبع آزمائی کا شوق پورا کرتے۔

نوابی آدمی تھے۔ ان کی زندگی خاصی زنگین رہی تھی لیکن پھر تنگی حالات کی وجہ سے کہیں زندگی کے وہ رنگ پھیکے پر گئے لیکن پھر بھی ان پھیکے رنگوں میں ان کے چہرے کی چمک ویسی ہی برقرار رہی۔ ان کا مسکراتا چہرہ ہمیشہ زندگی ک مشکلوں کے سامنے چٹان بن کر کھڑا رہتا۔

ان کی زندگی کا بڑا حصہ لاہور میں گزرا۔ ذہن کاروباری تھا لہذا جو کام ملا خوش دلی سے کیا اور نیت صرف ایک ہی رہی کہ حلال رزق کے ساتھ ساتھ ذاتی کاروبار کی کوششیں کامیاب کی جائیں۔ رفیق حیات کا ساتھ خدا تعالیٰ کی خوبصورت دین تھا جو ہمہ وقت امین صاحب کے شانہ بشانہ رہیں۔

زندگی خوب نبھ جاتی اگر یہ ساتھ کچھ وقت اور رہ جاتا لیکن وہ انہیں بیچ رستے ہی چھوڑ کر اگلے جہاں رخصت ہو گئیں۔

چھوٹے بچے، شریک حیات کا دکھ اور سونا گھر۔ امین صاحب پھر لاہور نہ رہ سکے اور ایک دوست کے مشورے پر لاہور سے تین سو کلومیٹر دور ایک نئے شہر میں آکر آباد ہوگئے۔

نئی جگہ، نئے لوگ لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ گھر کی ہانڈی سے لے کر دکانداری کی چاندی تک خوب محنت کی۔ پرانے کپڑوں کا کاروبار کیا۔ گلی، گلی فروٹ بیچا پپھر ایک دوست کے مشورے پر آئسکریم بنانا شروع کر دی غرض کوئی ایسا کام جس سے انہیں لگتا کہ روزی اچھی مل سکتی ہے اسے اپنا لیتے۔

ان کے پاس ہاتھ کے ذائقے اور مہارت کی اچھی سانجھے داری تھی لہذا ان کا آئسکریم کا کام خوب چل نکلا۔ اپنے تین لڑکوں کو بھی یہی کام سکھایا اور انہیں شہر کے مختلف پوائنٹس پر کھڑا کر دیا۔ دو بیٹیاں گھر میں آئسکریم کا سامان تیار کرنے میں مدد کرتیں اور امین صاحب کی نگرانی میں تیار مال دکانوں پر بھجوایا جاتا جسے گاہک ہاتھوں ہاتھ خریدتے۔

آئسکریم بچوں، عورتوں اور بڑوں میں یوں مقبول ہوئی کہ ایک برینڈ بن گئی۔ ان کے تمام سٹالز کامیاب تھے اور بس پھر کام چل پڑا۔

خوشی ابھی اپنی تھوڑی سی اڑان پر تھی کہ اچانک چھوٹی بیٹی کو کینسر ہوگیا۔ دوائی سنبھالا نہ دے سکی اور وہ اللہ کو پیاری ہوگئی۔ ایک اور عزیز کی ناگہانی موت نے امین صاحب کو نڈھال تو کر دیا لیکن پھر گزرتے وقت میں بظاہر زخم مندمل ہوتے نظر آنے لگے۔

زندگی کا پہیہ ابھی تھوڑی ہی دور اور چلا تھا کہ خود امین صاحب کو گردوں کا عارضہ لاحق ہوگیا۔ صحت مند و توانا جسم کمزوری کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ ڈاکٹرز نے ساتھ شوگر (بیماری) کی تشخیص بھی کی اور سخت آرام کے ساتھ باقاعدگی سے دوائی تجویز کی۔

دوائی کی حد تک تو بات ٹھیک تھی لیکن آرام کی بجائے امین صاحب کو کام زیادہ راس آتا تھا لہذا انہوں نے بیٹوں کے ساتھ ملکر خوب محنت کی۔ بڑھتی شوگر کو کئی سالوں تک روکے رکھا اور مزید بیماری کو اپنے قریب نہ بھٹکنے دیا۔ انہیں لگتا تھا جس دن وہ بستر سے لگ گئے اس دن وہ لمبی نیند کے ہاتھ لگ جائیں گے۔

دن رات کی محنت کا یہ فائدہ ہوا کہ امین صاحب نے تمام بچوں کی بخوبی احسن طریقے سے شادیاں کی۔ بڑی بیٹی کے ساتھ خاصا پیار تھا اسے ماں کی طرح آنسوؤں سے رخصت کیا۔ ہر بیٹے کو الگ الگ دکان پر الگ، الگ کام شروع کروایا اور شہر کے وسط میں بیٹوں کے لیے دو نئے مکان خریدے تاکہ زندگی کی مزید آسائشیں میسر آسکیں۔

اکثر ملتے تو جذبہ اس قدر ہوتا کہ کہتے ”شہر میں جہاں جہاں امین آئسکریم کا سٹال ہے وہ دکان خرید لینے میں بس کچھ ہی دن باقی ہیں۔ “ انہیں اپنی محنت پر بے حد یقین تھا اور یہی وجہ تھی کہ مایوسی کبھی ان کے قریب نہ بھٹکی۔

اپنے پرانے شہر کو بہت یاد کرتے تھے۔ لاہور جانے کا ذکر آتا تھا تو کہتے ”مینوں لے چلو اوئے لاہور“ لیکن کام کی زیادتی اور بیماری کی وجہ سے اب لاہور رہنا مشکل تھا۔ لاہور سے بڑا پیار کرتے تھے۔ اپنی گلی، محلے کو یاد کر کے اکثر بیتے دنوں کی کہانیاں سناتے۔

پھر ایک دن فالج کا شکار ہوکر بالکل ہی بستر سے لگ گئے۔ قریبی سرکاری ہسپتال میں ان کا آخری چیک اپ کیا گیا تو ڈاکٹرز نے وہی تجویز دی ”ایہاناں نوں لاہور لے جاؤ“۔

اب کی بار امین صاحب جان چکے تھے کہ لاہور ہی ان کا آخری ٹھکانہ ثابت ہوگا۔ انہیں اس دفعہ لاہور جانے میں ایک انجانہ خوف محسوس ہوا اور انہوں نے بیٹوں سے ضد کی کہ وہ لاہور نہیں جانا چاہتے۔

شاید وہ اپنے اس انجانے خوف سے بچ کر کچھ دن اور جینا چاہتے تھے۔

ان کی بڑھتی بیماری کو دیکھتے ہوئے بیٹوں سے صبر نہ ہوا اور انہیں لاہور لے جانے کا سوچا گیا۔ اس دن امین صاحب نے آخری بات نیلی چھت کو دیکھا اور پھر ایمبولینس انہیں لے کر لاہور کے رخت سفر پر نکل گئی لیکن بیچ رستے ہی ان کے تمام سفر ختم ہوگئے۔
ان کے لاہور جانے کی خواہش پوری تو ہوئی لیکن اک ایسی شکل میں کہ وہ جی بھر کر دوبارہ لاہور کو نہ دیکھ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).