برے دن کی خواہش کے ساتھ


بچپن میں ایک واقعہ کہیں سنا، پڑھا تھا (جاوید چوہدری صاحب نے بھی اپنے استاد کے حوالے سے ایسا ہی واقعہ اپنے ایک کالم میں لکھا تھا) ، کہ ایک استاد نے کلاس روم میں تختہ سیاہ پر ایک لکیر کھینچ دی اور بچوں سے کہا کہ اسے چھوٹا کرنا ہے لیکن شرط ایک ہے اور وہ یہ کہ اسے مٹانا نہیں۔ اب بچے شروع ہو گئے۔ ہر طرح کا اندازا لگا لیا لیکن آخر اس نتیجے پر پہنچے کہ مٹائے بغیر اس لکیر کا چھوٹا ہونا ناممکن ہے۔ آخراستاد اٹھے اور اس لکیر کے متوازی اس سے بڑی ایک اور لکیر کھینچ دی۔ اور سمجھایا کہ ”دیکھو یہ پہلی لکیر اپنے آپ چھوٹی ہو گئی ہے۔ پھر سمجھایا کہ زندگی میں کسی اور کے قد کو کسی سازش، کسی پلان، کسی منفی قدم سے چھوٹا کرنے کی بجائے اپنا قد بڑا کرو، دوسرے کا قد خود بخود چھوٹا ہوجائے گا۔ “

یہ ان چند سبقوں میں سے ایک تھا جو زندگی بھربھولا نہیں اور ہمیشہ کے لئے ذہن سے چپک گیا۔ پھرکبھی کسی موڑ پر کسی کی لکیر مٹانے کا ادنی سا خیال بھی آیا تو یہ واقعہ راستہ روک لیتا رہا۔ اور مقدور بھر اپنی لکیر کی طرف ہی توجہ دی نہ کہ دوسروں کی لکیر پر۔

یہ واقعہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے باولنگ کوچ اظہر محمود کے حالیہ بیان پر پھر یاد آگیا جو انہوں نے نیوزی لینڈ اورپاکستان کے اہم میچ سے پہلے دیا ہے۔ فرماتے ہیں ”امیدہے کل نیوزی لینڈ کا برا دن ہوگا۔ “ مطلب یہ کہ ہم اپنی ٹیم کی کارکردگی سے یا اپنے گیم پلان کو بہتر بنانے سے زیادہ نیوزی لینڈ کی بری کارکردگی پہ تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔

غور کیا کہ صرف کرکٹ اور اظہر محمود پہ ہی کیا موقوف، زندگی کے زیادہ تر معاملات میں ہمارا یہ رویہ قومی سطح پر ایسا ہی ہے۔ ہم تہیہ کیے بیٹھے ہیں کہ خود ہم نے کچھ نہیں کرنا۔ یا تو دوسرا غلطی کرے گا جس کا فائدہ ہمیں ہوگا یا پھر کوئی معجزہ نازل ہوگا جو دوسرے کی لکیر کو چھوٹا اور ہماری لکیر کو بہت بڑا کردے گا۔

ہم کسی اور کی جیت، کسی اور کی ہار کسی بارش کے منتظر رہتے ہیں کہ ہماری ٹیم آگے جاسکے۔ ہم دوسرے کی غلطی پر ٹھٹھہ اڑا کر اپنی غلطی پر ہمدردی کے طالب رہتے ہیں۔

ہم چین کی سیاسی، عسکری ترقی پر اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ اس طرح انڈیا اورامریکہ کی لکیر چھوٹی ہوئی جاتی ہے۔ ہم عمران خان کی حکومت کی کارکردگی بتانے کی بجائے زرداری اور نواز شریف کی غلطیاں بتانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ہم ن لیگی دور کی اصلاحات بتانے سے زیادہ ہنوزمشرف دور کی آمریت کے غلط فیصلے گنوانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ہم اپنی تعلیم اور تحقیق کی طرف توجہ سے زیادہ دوسروں کی ایجادات میں کیڑے نکالنے اور کیڑے پڑے دیکھنے کے خواہشمند رہتے ہیں۔ ہم اپنی دلیل کی مضبوطی کی بجائے اپنے شور سے دوسروں کو خاموش کر دینے کے خواہاں ہیں۔ اپنے اردگرد کے ماحول کو جنت نظیر بنانے کی بجائے دوسروں کو جہنم میں جلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔

اسی رویے کی وجہ سے ہم آسمان سے کسی ولی، کسی اوتار، کسی عیسی کے آنے کے خواہشمند ہیں کہ اس کے آنے سے ہی امت کو نئی زندگی ملے گی۔ ہمارے شہروں میں امن، سکون، شانتی، ترقی، قوانین کا بول بالا، صفائی ستھرائی عام ہوگی، علوم کے دریا بہیں گے، خزانے وہ اتنے تقسیم کرے گا کہ یاقوت و جواہر رکھنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ ہر میدان میں دوسروں کی لکیریں چھوٹی ہوتی جائیں گی، یہاں تک کہ ہماری لکیروں سے بھی نیچے چلی جائیں گی۔

یہ رویے ہماری گھٹی میں ہیں اور مذہب، سیاست، معاشرت، تعلقات، تجارت، دوستی، دشمنی، ہمسائیگی، کھیل یہاں تک کہ آخرت تک کے لئے اسی رویے کے اسیر ہو چکے ہیں۔ اسی لئے ہم حال کو پس پشت ڈال کر یا تو ماضی کے قصوں سے حظ اٹھاتے ہیں یا مستقبل کی خوش خبریوں کا انتظار کرتے ہیں۔
دوسرے اپنی لکیریں لمبی اور مضبوط کیے جاتے ہیں اور ہم کسی کے برے دن کی توقع لئے اپنی لکیر دن بدن شکستہ سے شکستہ تر ہوتی دیکھتے ہیں اور مست ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).