کوئی پوچھے تو کہنا۔ ۔ ۔ ۔


”کوئی پوچھے تو کہنا خان آیا تھا“۔ بظاہر یہ ایک فلمی ڈائیلاگ لگتا ہے، لیکن درحقیقت ہماری موجودہ سیاسی تاریخ پر مرتب ہوتی ایک نئی کتاب ہے۔ ہر روز اس کہانی میں عام آدمی کی پریشانی، دکھ، کرب اور تلخ تجربات پر مشتمل اِک نئے باب کا اضافہ ہو رہا ہے۔  ”تبدیلی“ کو ووٹ دینے پر پچھتاوے کا اظہار زبان زدِ عام ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کہانی کس کروٹ بیٹھے گی، اس کے نتائج کیا ہوں گے، اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔ گوکہ اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ لوگوں کی معاشی پریشانیاں بڑھ رہی ہیں اور کم تنخواہ دار طبقہ نفسیاتی مریض بننا شروع ہو گیا ہے۔

میرا روزانہ کئی لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کئی جگہ جاتا ہوں۔ ہر شخص مہنگائی کی موجودہ لہر کے ہاتھوں سخت پریشان ہے اور خود کو اذیت میں محسوس کر رہا ہے۔ پی ٹی آئی کو ووٹ دینا عام طبقے کے لئے طعنہ بن کر رہ گیا ہے۔

٭ ایک صاحب بتا رہے تھے کہ وہ گذشتہ روز ناشتہ لینے گئے تو دکاندار نے پہلے سے کم مقدار میں دیا۔ صاحب نے اعتراض کیا تو جواب ملا ”بھائی جی کیا کریں، پی ٹی آئی کو ووٹ دیا ہے، ہر چیز مہنگی ہوتی جا رہی ہے“۔

٭ اپنے گھر کے باہر ایک شخص نے میرے سامنے اپنی موٹر سائیکل کو یہ کہتے ہوئے آگ لگادی کہ وہ پٹرول کی مسلسل بڑھتی قیمت کو افورڈ نہیں کر سکتا۔
٭ میں نے راہ چلتے ایک شخص کو ایک ریڑھی والے سے فروٹ کے دام پر بحث کرتے پایا۔ ریڑھی والا دام گھٹانے سے انکاری تھا اور کہہ رہا تھا کہ ”پا جی تبدیلی نوں ووٹ دتا جے، بھگتو ہن“۔

٭ گیس کی قیمتوں کو آگ لگ گئی۔ گھریلو صارفین کے لئے گیس 190 فیصد مہنگی کر دی گئی۔ بجلی کی قیمتیں بھی ایک مرتبہ پھر بڑھ گئی ہیں۔ سی این جی، سیمنٹ، سریا، کھاد، آٹا، روٹی، ہر چیز کی قیمتوں کو آگ لگ چکی۔

٭ ایک سفید پوش خاندان کے لئے اپنے بچوں کی شادی پر زیورات تک رسائی پہلے ہی بہت مشکل تھی، اب یہ ناممکن ہوتی جا رہی ہے۔ سونے کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ گذشتہ دنوں میرے محلے کا مالی آیا اور بیٹی کی شادی کے لئے مدد کی اپیل کی۔ وہ بتا رہا تھا کہ اس نے آٹھ سال لگا کر بیٹی کی شادی کے لئے رقم جوڑی تھی اور اتنے پیسے جمع کر لئے تھے کہ سادگی سے بیٹی کی شادی کر سکتا۔ اب جبکہ شادی کا وقت آگیا ہے تو ہر شے کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکسز کی بھرمار کے بعد اس کو جوڑے گئے پیسوں سے تین گنا زیادہ کی ضرورت ہے۔

٭ چند دن قبل میں دودھ کی دکان پر کھڑا تھا۔ ساتھ ہی پرچون سٹور تھا۔ ایک شخص نے کوکنگ آئل خریدا، تو گذشتہ ماہ کی نسبت 60 روپے اضافی دینا پڑے۔ اس نے حیرانگی کا اظہار کیا تو دکاندار نے کہا ”بھائی تبدیلی کے مزے لو“۔

٭ آج صبح ہی میں ایک سبزی فروش کی بپتا سن رہا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ جتنی مہنگائی ہو چکی ہے، اب تو بیچنے کے لئے بھی سبزی خریدنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اپنی بساط کے مطابق پہلے جتنی سبزی خریدتا تھا، اب اس سے آدھی خرید پاتا ہوں۔ اس کے باوجود گھر چلانے کے لئے خرچہ نہیں پورا ہوتا۔

٭ اسی طرح چند روز قبل میں ایک پٹرول پمپ پر پٹرول ڈلوا رہا تھا، وہاں کا ملازم کہنے لگا کہ باؤ جی، میری صرف 16 ہزار روپے تنخواہ ہے۔ جتنی مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے، اتنا ہی میری پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جنہیں میں پڑھانا چاہتا ہوں، بیمار بیوی ہے جس کی دوائی مستقل نہیں خرید پاتا۔ الیکشن میں خان صاحب کو ووٹ دیا تھا کہ شاید ہماری سنی جائے، لیکن اب مایوسی کا یہ عالم ہے کہ خودکشی کو جی چاہتا ہے۔

٭ میں بس میں سفر کر رہا تھا۔ دو مزدور بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ موجودہ حکومت نے ہمارے دھوئیں نکلوا دیے ہیں۔ کام ملنا بھی کم ہو گیا ہے۔ دوسری طرف آٹا تک مہنگا ہو گیا۔ سمجھ نہیں آتی کہ کہاں جائیں، کیا کریں۔ خالی ہاتھ گھر جاتے ہیں تو بچوں کی آنکھوں میں امید دیکھ کر مجھے اپنے زندہ ہونے پر شرم آنے لگتی ہے۔

یہ تو صرف ایک طبقے کے چند کرداروں کی بات تھی۔ حکومت کی ”کاوشوں“ سے دوسرے درجے کا طبقہ بھی سر دھنتا دکھائی دے رہا ہے۔

٭ میرا ایک کولیگ اسی طرح ایک روز اپنی پریشانی کا اظہار کر رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ آمدن کم اور خرچے زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ سوچ رہا ہوں بچے کا کالج جانا بند کر دوں۔ اس نے اپنے بچے کی ملازمت تلاش کے حوالے سے بھی لوگوں سے کہنا شروع کر دیا ہے۔

یہ سب سچے واقعات ہیں۔ ایسی مزید بھی بے شمار کہانیاں ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ عام آدمی کی زندگی کتنی بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کے لئے جینا مشکل تر ہو رہا ہے۔ حکومت نے اگرچہ کم از کم تنخواہ 17500 مقرر کی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے سفید پوش طبقے کی ایوریج تنخواہ 13 سے 16 ہزار روپے کے درمیان ہے اور بے شمار لوگوں کی تو اس سے بھی کم ہے۔ ان حالات میں ایک سفید پوش خاندان کے گرد نا امیدی اور مایوسی کا گھیرا کیسے تنگ ہوتا جا رہا ہے، یہ صرف وہی جانتا ہے۔

جناب وزیراعظم! آپ کہتے تھے، تین ماہ تک گھبرانا نہیں، اب تو لوگ اتنا پریشان ہو چکے ہیں کہ بات گھبراہٹ سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ آئی ایم ایف کا سہارا گذشتہ حکومتیں بھی لیتی رہی ہیں لیکن کبھی حالات اس نہج پر نہیں پہنچے جہاں آج ہم کھڑے ہیں۔ سابقہ حکومتوں پر آئی ایم ایف کا پریشر ضرور تھا لیکن انہوں نے وہ پریشر کبھی عوام پر منتقل نہیں کیا تھا۔ ایسے اقدامات سے آپ کا اعتماد کھو رہا ہے۔ جہاں آج ہم کھڑے ہیں، جس بند گلی میں آپ کی قیادت میں ہم داخل ہو رہے ہیں، یہاں آپ کے فیصلوں کے نتیجے میں بے روزگاری، بے اطمینانی، غربت، افراتفری، خودکشیوں اور گداگروں کی تعداد میں اضافہ ہوگا، احساسِ محرومی اور عدم تحفظ کا احساس بڑھے گا۔

آج لوگ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہورہے ہیں۔ آپ قوم کو سکون دینے کے لئے آئے تھے۔ لوگوں کی پریشانیاں دور کرنے کا عزم لے کر آئے تھے۔ لیکن یہ ہمارے ساتھ کیا کر رہے ہیں آپ؟ ۔ ذرا صبر، ذرا ٹھہرو کرتے کرتے آج ہر چیز لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ غریب مزید غریب ہو رہا ہے۔

یوٹیلیٹی بلز کی لاگت بڑھ چکی۔ آپ کی مقرر کی گئی کم از کم تنخواہ کے برابر بلز آنے لگ گئے ہیں۔ آج لوگ پریشان ہیں کہ وہ اپنے گھر چلائیں یا بلز بھریں۔ بچے پڑھائیں یا رزق کمائیں۔

جناب وزیراعظم! آج ”تبدیلی“ ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ آپ سربراہِ مملکت ہیں اور آپ کو حکومت بہت طویل جدوجہد کے بعد ملی ہے۔ اس جدوجہد کا پاس رکھئے۔ کیونکہ جب میں ”تبدیلی“ کو گھر گھر بدنام ہوتے دیکھتا ہوں تو مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا۔ مجھے اپنے ووٹ کی وقعت گھٹتی محسوس ہوتی ہے۔ جب یہ تبدیلی مجھے سڑکوں پر بھیک مانگتے، حالات سے مجبور ہو کر خود کشی کرتے نظر آتی ہے۔ جب لوگ آپ کے بارے میں یوں طنز کرتے ہیں کہ ”تبدیلی کو ووٹ دیا تھا نا؟بھگتو اب“۔

یا جب کوئی بیچارگی سے کہتا ہے کہ ”ہم خان صاحب کو ووٹ دینے کی قیمت چکا رہے ہیں“۔ یا پھر جب کوئی یہ کہتا ہے کہ ”ہم یاد رکھیں گے کہ خان آیا تھا“۔ ایسے کاٹ دار جملے نہ صرف ہماری امیدوں کو نا امیدی میں تبدیل کر رہے ہیں بلکہ لوگوں کو ان کے ”تاریخی فیصلے“ پر بھی سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں ہی اپوزیشن جماعتوں کو موقع ملتا ہے کہ وہ عوام کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کریں۔ قوم کو بہت مشکل سے شعور آیا ہے اور حکومت مخالف عناصر اگر عوام کے شعور پر کاری ضرب نہ بھی لگا سکیں تو موجودہ حکومت کے ایسے اقدامات ضرور انہیں بے شعوری کی کیفیت میں واپس لے جائیں گے۔

جناب وزیراعظم! سابق ارباب اقتدار کی نالائقیوں اور نا اہلیوں کا بوجھ عام عوام پر منتقل کرنے سے معیشت بہتر نہیں مزیدخراب ہوتی ہے۔ نئی حکومت عوام کی توقعات کا خون کر رہی ہے۔ اس کا ادراک تب ہوگا جب عوام میں مایوسی، نا امیدی اور احساس محرومی بڑھے گی اور عدم تحفظ کے احساس کو تقویت ملے گی۔ اور لوگ ایک مرتبہ پھر انہی کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوں گے، جن سے وہ ڈسے ہوئے ہیں۔ پھر جب ان سے کوئی اس ”رجوع“ کی وجہ پوچھے گا تو وہ یہی کہتے دکھائی دیں گے کہ ”خان آیا تھا“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).