پنچایتی نظام کو کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا؟


پنچایتی نظام کا تصور نیا نہیں بلکہ اس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے اور حیرت انگیز طور پر آج بھی دُنیا بھر میں یہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ آپ دُنیا کی جنگ و جدل کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں اُن کے فیصلے بھی بالآخر انسانوں کے باہم مل بیٹھنے سے ہی ہوئے۔ اگر ہم دُنیا کی دو عالمی جنگوں کا احاطہ کریں تو دیکھیں گے کہ دونوں عالمی جنگوں کا اختتام بھی دُنیا کے مل بیٹھنے اور ڈائیلاگ سے ہی ہوا۔ آپ یہ دیکھیں کہ گاؤں کی چوری سے لے کر دُنیا کے بڑے مسائل کے حل کے لئے بھی انسانوں کا مل بیٹھ کر فیصلہ کرنا ہی اہم ہوتا ہے اور اسی طرح انسانی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ آپ چاہے اسے کوئی بھی نام دے دیں لیکن یہ تو طے ہے کہ انسانوں کی مشاورت کے بغیر دُنیا کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔

ہمارے ملک میں پنچایتی نظام نیا نہیں بلکہ یہ اُس وقت سے ہی شروع ہوا جب سے انسان نے اس دھرتی پر قدم رکھا اور اُسے اپنے مسائل کے حل کے لئے دوسرے انسانوں سے مشاورت کرنی پڑی۔ گو کہ ہمارے ہاں ”کچھ فیصلوں“ کی بناء پر پنچایتی نظام اور اُن کے فیصلوں پر سوالیہ نشان اُٹھے ہیں جن کی وجہ سے پنچایتی نظام کو سرے سے ختم کرنے کے دعوے بھی کیے گئے لیکن تاحال پنچایتی نظام ملک بھر میں برقرا ر ہے اور جس کا دائرہ کار صرف دیہاتوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اسے شہروں میں بھی پذیرائی حاصل ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دُنیا بھر میں ہمارے پنچایتی فیصلوں کی جگ ہنسائی کے باوجود ہمارے ملک کے عام آدمی کو اس پر یقین کیوں ہے؟ وہ کیوں اپنا چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا مسئلہ پنچایت کے ذریعے ہی حل کرانا چاہتا ہے باوجود اس کے جاننے کے کہ ہمارے ملک میں پولیس کا اداراہ اور اعلیٰ عدالتیں موجود ہیں؟

میں سمجھتا ہوں کہ ہم قیام پاکستان کے بعد ستر برسوں میں پنچایت کے بالمقابل انصاف فراہم کرنے کا کوئی ایسا ادارہ کھڑا نہیں کر سکے جو شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا صحیح معنوں میں ضامن ہو۔ پولیس کی کارکردگی پورے ملک میں عوام کے لئے سوالیہ نشان ہے؟ عدالتوں میں سالہا سال سے انصاف کے منتظر ہزاروں بلکہ لاکھوں کیس انصاف کے متلاشی ہیں۔ ایسی صورتحال میں عام آدمی انصاف کے لئے پنچایت پر ہی انحصار کرتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں پنچایتی نظام اپنے پنجے گاڑے ہوئے جسے پنجاب میں پنچایت، سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں جرگہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

آپ مشاہدہ کریں ان تمام صوبوں میں بیشتر فیصلے پنچایت اور جرگہ کے ذریعے ہی کیے جاتے ہیں۔ عام آدمی جانتا ہے کہ اگر وہ اپنا مسئلہ پولیس اور عدالت میں لے کر جائے گا تو اُسے انصاف ملنے میں خاصی تاخیر ہو جائے گی اور اس ضمن میں اُسے جن تکلیف کے مراحل سے گزرنا پڑے گا اُس سے بچنے کے لئے وہ ان اداروں کے پاس جانے کی بجائے پنچایت کے ذریعے ہی اپنا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

پنچایتی نظام پر تنقید کرنے والے محض چند مخصوص فیصلوں کا حوالہ دے کر اس نظام کو سرے سے ہی ختم کرنے کی حمایت کرتے ہیں لیکن وہ کبھی ان سینکڑوں بلکہ ہزاروں فیصلوں کو نہیں سراہتے جن کی وجہ سے پنچایت نے عوام کو ریلیف دیا ہے۔ اس ضمن میں میڈیا اورسول سوسائٹی بھی کبھی کبھار جانبداری کا ثبوت دیتی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ کسی ایک فیصلے کو بنیاد بنا کر اُس پورے ادارے کی کارکردگی کو نظر انداز کرنا سراسر نا انصافی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ پنچایت سے اگر کوئی انصاف کی بنیادوں کے منافی فیصلہ ہوا ہے تو ہمیں اُس کی مذمت ضرور کرنی چاہیے لیکن ساتھ ہی ساتھ اُس کی اصلاح کے لئے بھی تجاویز دینی چاہئیں تاکہ مستقبل میں ایسی غلطی کو دہرایا نہ جائے۔ ماضی میں اُن کے فیصلوں میں فرسودہ رسومات اور توہمات کے پیش نظر بھی فیصلے ہوئے خاص طور پر خواتین کے خلاف ہونے فیصلے۔ میں اس کی بھر پور مذمت کرتا ہوں او ر اس ضمن میں تجویز دیتاہوں کہ اس کے تداراک کے لئے قواعد و ضوابط طے کیے جائیں تاکہ مستقبل میں اس قسم کے غلط فیصلے نہ ہو سکیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ ابھی عالمی سطح کی تنظیمیں پنچایتی نظام کی اہمیت کا ادراک کر چکی ہیں اسی لئے اُنہوں نے مقامی تنظیموں کے ذریعے پنچایتی نظام کو بہتر بنانے کے لئے سرگرمیاں ترتیب دی ہیں۔ اُن کے ساتھ گفت و شنید کی ہے۔ اُن کے ساتھ امن کی بات ہے اور پنچایتی فیصلوں میں غیر جانبداری کے فیصلے کرنے پر زور دیا ہے۔ گو کہ اس ضمن میں مبہم رویہ اختیار کیا گیا ہے لیکن ان تمام سرگرمیوں میں پنچایت سے جڑے تمام لوگوں کو شامل کیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں تمام پنچایتی فیصلے انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوں۔ یہ تمام سرگرمیاں واقعی قابل تحسین ہیں جن کے ذریعے یقینا اس نظام سے جڑے لوگوں کی سوچ میں تبدیلی پیدا ہو گی جس سے پنچایتی نظام پر ہونے والی تنقید میں ضرور کمی واقع ہو گی۔

اگر ہم اپنے پڑوسی ملک کو دیکھیں تو وہاں پنچایتی نظام کو خاصی پذیرائی حاصل ہے گو کہ وہاں بھی جب پنچایت غلط فیصلہ کرتی ہے تو اُس پر سوال اُٹھائے جاتے ہیں اور اُن کا میڈیا بھی اس ضمن میں خاصی خبر لیتا ہے لیکن ا س کے باوجود وہ نظام اُس معاشرے میں خاصی اہمیت کا حامل ہے اور دلچسپ بات یہ کہ اُسے سرکاری سر پرستی بھی حاصل ہے۔ ہمارے ملک میں بھی سابق صدر مشرف کے دور حکومت میں بلدیاتی نظام میں اسے سرکاری سطح پر شامل کیا گیا اور مصالحتی کمیٹیوں کا نام دیا گیا۔ ان مصالحتی کمیٹیوں کو یونین کونسلوں کے ساتھ جوڑا گیا تاکہ گراس روٹس لیول تک اس کے ثمرات عوام تک پہنچیں لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے اس نظام کو مسترد کر دیا اور ایک مرتبہ پھر عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لئے پنچایت کی طرف جانا پڑا۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ نظام اس حد تک اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے کہ اسے ختم کرنا ممکن نہیں تو کیوں نہ اس نظام کو بہتر بنانے کی عملی کوشش کی جائے۔ اس ضمن میں بہت ضروری ہے کہ اسے یونین کونسلوں سے جوڑا جائے اور یونین کونسلوں میں اس کے فیصلے ہوں اور اُن فیصلوں کو باقاعدہ رجسٹرڈ کیا جائے۔ دوسرا پنچایت میں فیصلہ کرنے والوں کے لئے کوئی قواعد و ضوابط مقرر کیے جائیں۔ اُن کی تعیناتی کے لئے کوئی اُصول مقرر کیے جائیں اور اُن کی تعیناتی کا عرصہ مخصوص کیا جائے اور مدت ختم ہونے پر کسی اور شخص کو باہمی مشاورت سے منتخب کیا جائے۔

پنچایت کے ممبر کو اچھی شہریت کا حامل ہو نا ضروری ہے اور اگر اُس یونین کونسل میں کوئی ریٹائرڈ جج، اُستاد اور دوسرے اداروں سے ریٹائرڈ نیک شہرت کے حامل افراد کو شامل کیا جائے۔ پنچایتی ممبروں (فیصلہ کرنے والوں ) کے لئے یونین کونسل کی سطح پر ریفریشر کورسز کروائے جائیں۔ فیصلے کے دوران کسی ایک ممبر کی ذمہ داری ہو کہ فیصلے کو قلمبند کرے جسے علاقے میں تمام عوام کے ساتھ شیئر کیا جائے۔ فیصلے کی ایک کاپی یونین کونسل کے ریکارڈ میں درج ہو۔ غلط فیصلہ کرنے کی صورت میں فیصلہ کرنے والوں کے لئے سزا اور جزا کا تعین ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ ہر فیصلے کے کچھ اُصول و ضوابط طے کیے جائیں اور فیصلہ کرتے وقت پاکستانی آئین اورانسانی حقوق کے عالمی منشور کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

مندرجہ بالا وہ تمام تجاویز ہیں جن کے ذریعے ہم پنچایتی نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ ہمیں اس کا ادراک ہونا چاہیے کہ پنچایتی نظام کے ذریعے عوام کو فوری انصاف ملنے کی توقع ہے اور یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ وہ اس نظام کو ختم نہیں ہونے دیں گے۔ اس لئے حکومت وقت جو نیا بلدیاتی نظام لانے کے لئے کوشاں ہے اُس سے اس ضمن میں سفارش کی جاتی ہے کہ وہ اس نظام کو بہتر بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے اور اسے بلدیاتی نظام کے ساتھ جوڑے تاکہ عوام سمیت ناقدین کے اعتراضات کا خاتمہ ہو سکے۔ ہمیں پنچایتی نظام کو قبول کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کو مضبوط کریں تاکہ مستقبل میں ملک کے نشیب و فراز میں بسے لوگوں کا اس نظام پر اعتماد مزید بحال ہو۔ دوسرا پنچایت سے جڑے لوگ بھی بلدیاتی نظام میں شامل ہوں، تربیت حاصل کریں تاکہ اُن کے تمام فیصلے انصاف کے اُصولوں کے عین مطابق ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).