کم از کم آپ تو ایسا نہ کہیں


کیا ایک استاد یا چلیں چند اساتذہ کے برا ہوجانے سے درس وتدریس کا نظام کلی طور پر باطل کہلائے گا اور تمام اساتذہ جلاد اور ظالم کہلانے کے مستحق ہو جائیں گے؟
کیا کسی ایک فوج کے سپاہی کے غدار اور وطن فروش ہوجانے سے ان سرفروشوں کی قربانیوں کو اکارت سمجھ لیا جائے گا جنھوں نے خون کے آخری قطرے تک کو مادر وطن پہ نثار کردیا؟

کیا کسی ایک جج کے غلط فیصلے سے ماضی کے درست اور مبنی بر انصاف فیصلوں پر پانی پھیر دیا جائے گا، یا کسی ایک بدعنوان اور عاقبت نا اندیش قاضی کی طمع نفسانی کو بنیاد بنا کر تمام عدالتی نظام کو کرپٹ اور گندہ قرار دے دیا جائے گا اور اس کے ہر رکن پہ سفاکیت کے فتوے لگا دیے جائیں گے؟

کیا مسجد ومدرسہ کے کسی ایک مولوی کی غلطی سے تمام اہل مدرسہ راندہ درگاہ ٹھہریں گے؟ ایک کی برائی سے جبہ و دستار کے حامل تمام لوگ رسوا قرار پائیں گے؟

کیا چند صحافیوں کے بک جانے سے شعبہ صحافت سے وابستہ تمام افراد کھوٹے اور حق پوش کہلائیں گے؟
اگر ان تمام سوالات کے جوابات ہاں میں ہیں تو پھر محکمہ پولیس سے وابستہ تمام افراد کو چور اور ڈاکو قرار دینے میں اور تمام شعبہ پولیس کو کرپٹ اور گندہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

لیکن جناب والا ایسا نہیں ہے۔ یہ ملک اور اس ملک کے ادارے آزادی کے ستر سال بعد بھی زیر تعمیر ہیں۔ آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ نے اس ملک کی چولیں ہلا کے رکھ دیں ہیں۔ نجانے کتنے گھروں کے چراغ ان طوفانوں کی نذر ہوگئے۔ پاک فوج اور پولیس کے نڈر جوان ہی تو وہ ہراول دستہ ثابت ہوئے جنھوں نے اس مادر وطن کو محفوظ بنانے کے لئے سینے پہ گولیاں کھائیں، اور دہشت گردوں کو یہ بتلا دیا کہ اس ملک کی حفاظت کرنے والے ہاتھ ابھی سلامت ہیں۔

جنابِ والا! ادارے انسانوں نے بنائے ہیں اور انسانوں میں بڑھیا اور گھٹیا، شریف و رذیل، نیک وبد ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں تو کسی ایک کے اُچکا ہوجانے کی وجہ سے سارا محکمہ چور اُچکا نہیں ہو جاتا کم از کم آپ کو ایسے نہیں کہنا چاہیے اور خاص طور پر اس کرسی پہ بیٹھ کر کہ جس پر بیٹھ کر بولا جانے والا ہر لفظ قانون کی حیثیت رکھتا ہو۔ آپ کی مثال تو اس شخص کی سی ہے جو اپنے گھر کے اندھیاروں سے صرف نظر کرتے ہوئے دوسرے کے گھر میں موجود چراغ کی کم لو پہ سیخ پا ہوا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).