فلک نے اُن کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں!


آدھی رات کا وقت تھا اسلام آباد کے ایک سرکاری اسپتال میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر صاحب آنکھوں میں نیند کے باوجود اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے موجود تھے۔ اچانک ان کے اسٹاف نے انھیں آکر بتایا کہ ایک مریض ایمرجنسی وارڈ میں لایا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے کمرے سے سے وارڈ میں پہنچے تو ہیضے کے باعث بارہ تیرہ سال کا ایک بچہ نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا۔ بچے کا باپ بھی حُلیے سے ایک غریب محنت کش لگ رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے فوری طور پر علاج شروع کیا اور کچھ دیر بعد بچے کی حالت سنبھلنے لگی۔

ڈاکٹر صاحب نے بچے کے والد کو ڈانٹتے ہوئے پوچھا کہ بچے کی حالت کب سے خراب ہے اور آپ اسے فوری طور پر اسپتال کیوں نہیں لائے؟ جواب میں بچے کے والد نے جو بتایا اسے سن کر ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر سمیت اسپتال کا دیگر عملہ کانپ کر رہ گیاکہ غربت اور فلاکت کا یہ تصور ان کے ذہنوں میں تھا ہی نہیں۔ بچے کے والد نے بتایا کہ وہ ایک دیہاڑی دار مزدور ہے جو منہ اندھیرے گھر سے نکلتا ہے اور رات گئے واپس لوٹتا ہے۔ آج بھی جب وہ دن بھر کی مزدوری سے تھک ہار کر گھر پہنچا تو اس کے بچے کی طبیعت بہت خراب تھی۔

اس کی جیب میں فقط دو سو روپے تھے۔ علاقے میں موجود نجی اسپتالوں کے اخراجات اس کی پہنچ سے باہر تھے۔ لہذا اس نے دن بھر کی مزدوری کی تھکان کے باوجود اپنے بچے کو کندھے پر ڈلا اور پیدل چلتا ہوا سرکاری اسپتال تک کا پندرہ کلو میٹر کا سفر پانچ گھنٹے میں طے کیا۔ اگر وہ جیب میں موجود دو سو روپے ٹیکسی یا رکشے پر خرچ کرتا تو علاج کے لیے یہ قلیل رقم بھی میسر نہ ہوتی۔

یہ ہے ہمارے عوام کی حالت زار اور ادھر اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ سینٹ کمیٹی برائے خزانہ نے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہو ں اور مراعات کے بل میں یہ نئی ترمیم متعارف کروائی ہے کہ ارکان سینٹ اور قومی اسمبلی کو اپنے اپنے حلقوں اور آبائی علاقوں میں جانے کے لیے ہر ماہ 25 ہوائی ٹکٹ مفت فراہم کیے جانے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے چئیرمین فاروق ایچ نائیک کی صدارت میں چھ روزہ اجلاس میں یہ ترمیم متعارف کروائی گئی ہے کہ جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ارکین قومی اسمبلی اور سینیٹ کو تنخواہوں اور دیگر مراعات کے ساتھ ساتھ ہر ماہ اپنے حلقے سے اسلام آباد تک سفر کے لیے بزنس کلاس کے 25 ہوائی ٹکٹ فراہم کیے جائیں گے۔ بجٹ کی منظوری کے ساتھ ہی اراکین پارلیمنٹ کو یہ سہولت جولائی 2019 ء سے دستیاب ہوجائے گی۔

افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تنخواہیں، مراعات اور مفت ہوائی ٹکٹ اور وہ بھی بزنس کلاس کے ان کو فراہم کیے جارہے ہیں جو عام انتخابات میں اپنی انتخابی مہم کے دوران نہ صرف کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں بلکہ اپنی ”دیانت“، ”صداقت“، ”قابلیت“ اور اپنے ”انسانی خدمت کے جذبے ’‘ کا ڈھول بھی گلی گلی محلہ محلہ پیٹتے ہوئے اصراراور تقاضا کرتے ہیں کہ انھیں ہی منتخب کیا جائے کہ اس عہدے کے لیے موزوں ترین“ وہ نہیں تو کون؟ ”۔ دوسرا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کمیٹی کے چئیرمین جناب فاروق ایچ نائیک ہیں جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ غریبوں کی حقیقی نمائیندہ جماعت ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کے موجودہ بجٹ کو عوام دشمن قرار دے چکی ہے اور پارلیمنٹ میں بجٹ کی منظوری کے خلاف ہے۔

ایک خاتون اپنے بیمار شوہر اور جوان بچیوں کے ساتھ ایک کوٹھی کی کوٹھڑی میں رہائش پذیر ہے۔ یہ رہائش کوٹھی کے مالک نے اس کو اس شرط پر فراہم کی ہے کہ وہ اس کے گھر کی صفائی اور اس کی بھینس کی بھی دیکھ بھال کرے گی۔ خاتون اس کوٹھی کے علاوہ چند اور گھروں میں بھی صفائی کا کام کرکے اپنی زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہی ہے۔ چند روز قبل اس خاتون کی ماں فوت ہوگئی۔ جب وہ خاتون اپنی ماں کی تدفین اور سوگ کے بعد چوتھے روز کوٹھڑی میں پہنچی تو مالک نے اسے سامان اٹھا کر نکل جانے کو کہا کیونکہ تین دن اس کے گھر کی صفائی نہیں ہوسکی تھی۔

ملک میں قدم قدم پر غربت اور افلاس کا راج ہے۔ جب کہ ہماری پارلیمنٹ میں یہ بحث ہورہی ہے کہ وزیراعظم کو سلیکٹڈ کہنا چاہیے یا نہیں۔ انھیں ایلکٹڈ کہا جائے یا نو مینیٹڈ کہا جائے۔ میثاق جمہوریت نے جو گل کھلائے تھے اسی کی طرز پر اپوزیشن لیڈر میا ں شہباز شریف کے تجویز کردہ میثاق معیشت کو میثاق معیشت ہی کہا جاناچاہیے یا مذاق ِ معیشت کہنا چایئے۔ کرپشن کے الزامات میں نیب کی حراست میں موجود اراکین پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے چاہیے یا نہیں۔ ہمارا میڈیا اس تاک میں ہے کہ شریف خاندان میں اختلافات کی شدت کی نوعیت کیا ہے؟ ۔

لاہور مین بجلی کی مصنوعات بنانے والی ایک کمپنی نے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے چالیس مزدوروں کو ملازمت سے فارغ کردیا۔ ان کی برطرفی پر جب دوسرے مزدروں نے احتجاج کیا تو انہوں نے تمام مزدروں کو فیکٹری سے نکال کر تالا لگا دیا۔ بے روزگار ہونے والے ملازمین نے اپنے حقوق کے لیے پر امن احتجاج کیا تو چالیس سے زائد مزدروں پر مختلف دفعات کے تحت ایف آئی درج کروا دی گئی اور جب ان مزدروں کی ضمانت ہوگئی تو ان مزدروں پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت ایک اور مقدمہ درج کروا دیا گیا۔ جب فیکٹری انتظامیہ نے دیکھا کہ معاملات بگڑتے جارہے ہیں تو سی بی اے یونین کے ساتھ مل کر تالا بندی ختم کردی اور تمام مزدوروں کو بحال کردیا لیکن جتنے عرصے تالا بندی رہی اس کا معاوضہ بھی گول کردیا۔

اسلام آباد کی ایک مضافاتی بستی کا رہائشی عبد اللہ ایک فیکٹری کے دفتر میں دس سال سے یومیہ اجرت پر کام کررہا ہے۔ چند دن قبل اسے ایک دوسرے ادارے میں بہتر تنخواہ پر ملازمت مل رہی تھی جس کے لیے اسے فیکٹری سے دس سالہ ملازمت کا سرٹیفیکٹ چاہیے تھا۔ جسے فیکٹری نے دینے سے صاف انکار کردیا۔ کیونکہ اس کے پاس کوئی قانونی جواز نہیں ہے کہ وہ ایک شخص کو دس سال سے یومیہ اجرت پر ملازم رکھے۔ اور پرسوں اسمبلی میں یہ بحث ہورہی تھی کہ عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل تو کہا کرتے تھے کہ وہ قرض نہیں لیں گے، آزاد امیدواروں کو ساتھ نہیں ملائیں گے، بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتیں نہیں بڑھائیں گے وغیرہ وغیرہ لیکن اب وہ یہ سارے کام کررہے ہیں۔ جواب میں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی داد طلب نظروں کے ساتھ یہ فرماتے ہیں کہ عمران خان نے یہ بھی تو کہا تھا کہ میں ”انِ کو رُلاوں گا“ سو رُلا دیا۔ یہ ہے بحث کا معیار اور انداز ہماری پارلیمان کا۔

فلک نے اُن کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).