آج قومی اسمبلی میں کیا ہوا؟


قومی اسمبلی کا اجلاس دن گیارہ بجے شروع ہوا۔ اسمبلی ہال میں حکومتی بنچز پر حاضری پوری تھی۔ اپوزیشن بنچوں پر معدودے چند اراکینِ اسمبلی تھے جو حاضر تھے، وہ بھی خوش گپیوں میں مصروف تھے۔

سپیکر اسمبلی نے مائیک سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے حوالے کیا تو انھوں نے حکومت کے ساتھ ساتھ نادیدہ قوتوں پر بھی الفاظ کی سنگ باری کی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک ہم نے اس ملک کو غیر متنازع انتخابات نہیں دیے۔ انتخابات کے روز پولنگ اسٹیشن پریزئنڈنگ افیسر کے کنٹرول میں نہیں ہوتا بلکہ کسی اور کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کے اندر انتخابات سٹنگ وزیراعظم کرواتا ہے وہاں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد ستر سے اسی کروڑ ہے مگر آج تک وہاں کسی نے انتخابات پر انگلی نہیں اُٹھائی۔ وہاں شفاف انتخابات ہوتے ہیں۔

اس ایوان میں بھی ایسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جو الیکٹ ہو کر نہیں آئے بلکہ سلیکٹ کئے گئے، کیونکہ ووٹ کہیں پڑتا ہے اور سلیکٹ کوئی اور ہوتا ہے۔ یہ جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔  اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے

اپوزیشن لیڈر شبہاز شریف نے کہا کہ معشیت پر بہت بحث ہو چُکی۔ اب مُلک کی خارجہ پالیسی پر بات ہونی چاہئے۔ ہم میچور اپوزیشن کریں گے۔ اسپیکر اسمبلی اس پر باقاعدہ اجلاس طلب کریں۔

وزیرخارجه شاہ محمود قریشی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مثبت بات ہونی چاہیے ایک دوسرے کی پگڑیاں نہ اچھالی جائیں۔

اجلاس میں بدمزگی اس وقت پیدا ہوئی جب تحریک انصاف کی رکن اسمبلی منزہ احسن اجلاس چیئر کر رہی تھی تو انھوں رولنگ دی کہ جن کے پروڈکشن آرڈر جاری ہوئے تھے وہ کہاں ہیں۔ انھیں فوری اجلاس میں بلایا جائے، پروڈکشن آرڈر اجلاس کے لیے جاری ہوئے تھے نہ کہ گھومنے کے لیے۔ حکومتی بنچوں سے چور کو حاضر کرو کے نعرے لگنا شروع ہوئے اس پر اپوزیشن واک اؤٹ کر گئی۔

چار بج کر پچیس منٹ پر وزیراعظم گرے رنگ کی شلوار قمیض زیب تن کئے ہوئے، ہاتھوں میں تسبیح اور پاؤں میں کپتان چپل پہنے اسمبلی ہال میں آئے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی نے ڈیسک بجا کر اُن کا خیر مقدم کیا۔ جس وقت عمران خان ہال میں تشریف لائے اپوزیشن بنچوں پر ایک بھی رکن اسمبلی موجود نہیں تھا وہ اپنے لوگوں اور اپوزیشن کی خالی کرسیوں سے بیس سے پچیس منٹ تک مخاطب رہے۔

تقریر کا آغاز انہی الفاظ سے کہ اپوزیشن ہم سے حساب مانگ رہی ہے جو ہمیں خسارہ دے کر گئی۔ ہم نے خسارہ کم کرنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی ہوئے۔

منی لانڈرنگ کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا ان کے خلاف زبردست کریک ڈاؤن کروں گا۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لاؤں گا۔

انھوں نے شکوے کے انداز میں کہا کہ یہاں کہا گیا کہ سلیکٹیڈ وزیراعظم مگر ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جو اس ایوان میں آتا ہے وہ منتخب ہو کر آتا ہے۔

انھوں نے مراد سعید کی خاص طور پر تعریف کی کہ انھوں نے اپوزیشن کو لوہے کے چنے چبوائے اور کونڈا لیزا رائس کی کتاب کا حوالہ دیا جو کہ مستند کتاب ہے جس وقت وہ مراد سعید کی تعریف کر رہے تھے وہ اس وقت ایوان میں موجود نہیں تھے تو حکومتی بیک بنچز سے آوازیں آئی پیچھے دیکھیں۔ اصل میں یہ اراکین اسمبلی وزیراعظم کو باور کروانا چاہتے تھے کہ ہم بھی ہیں۔ وزیراعظم نے حماد اظہر کو جن کے پاس وزیر مملکت کا قلمدان تھا، وفاقی وزیر بنانے کا اعلان بھی کیا۔

فوج کو خراج تحسین پیش کرنا وہ نہیں بھولے انھوں زبردست انداز میں انھیں خراج پیش کیا اور کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار فوج نے اپنا دفاعی بجٹ کم کیا اور سپہ سالار نے مجھ سے کہا کہ ہم نے جو بجٹ کم کیا یہ پیسہ بلوچستان اور فاٹا پر لگنا چاہیے۔

وہی برطانیہ کی مثالیں، چوروں کو نہیں چھوڑوں گا، ان کو اسمبلی میں تقریر کا موقع دے کر غلطی کی، کرپٹ شخص اے پی سی کا چیئرمین بن گیا، اومنی کا تذکرہ وغیرہ وغیرہ کوئی نئی بات نہیں بیس سے پچیس منٹ مخاطب رہے۔ پھر چلے گئے۔

نوٹ! اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف کی اسمبلی میں سرگرمیاں بالکل علحیدہ نوعیت کی ہوتی ہیں اور ایوان سے باہر وہ مڈٹرم انتخابات کی بات کرتے ہیں۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui