چور سپاہی کا کھیل


بچپن میں چور سپاہی کا کھیل کس نے نہیں کھیلا، بہت سارے سپاہی مل کر چور کو پکرتے تھے پھر مصنوعی رسی کی ہتھکڑی لگا کر جیل میں بند کردیا جاتا، پھر دوسرے چور کی تلاش شروع ہوتی۔ بچپن کے کھیل بھی نرالے ہوتے تھے کوئی فکر نہ پروا، چور بننے کا مزا بھی الگ سے آتا تھا چھپ چھپ کر اور سپاہیوں کی بھاگ بھاگ کر حالت پتلی ہوجاتی تھی جب جاکر چور پکڑا جاتا اور کھیل ختم ہوتا یا پھر مغرب کی اذان کھیل ختم کرنے کا اعلان کرتی اور بچے گھروں کو بھاگ جاتے کیونکہ مغرب کے بعد کھیلنا منع تھا۔

موجودہ دور میں ہمارے ملک میں چور سپاہی کا کھیل کھیلا جارہا ہے، نیب چوروں کو پکڑ کر بند کر رہی ہے لیکن چور ماننے کو ہی تیار نہیں کہ وہ چور ہیں اور ہے بھی سچ ان میں سے تو بہت سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے منتخب ممبرز ہیں۔ یہ تو لوگوں کی غلطی ہے چوروں کو ووٹ دے کر منتخب کیا ہے۔ انھیں چور سپاہی کا فرق ہی نہیں معلوم معصوم لوگ۔ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے، نہ جانے کیا ہیرا پھیری ہے چوروں کو سزا دینے کا مرحلہ آتا ہی نہیں ہے، پکڑ بھی لیے جاتے ہیں بند بھی کردیتے ہیں لیکن سزا ندارد۔ بہت زور شور سے چور سپاہی کا کھیل چل رہا ہے دیکھیں چوروں کا خاتمہ کب ہوتا ہے۔

ایک اور کھیل پرچیاں بنا کر ان پر بادشاہ، وزیر، چور، سپاہی لکھا جاتا اور چاروں بچے ایک ایک پرچی اٹھا لیتے جس کے پاس بادشاہ کی پرچی آتی وہ با آواز بلند پوچھتا میرا وزیر کون؟ ، وزیر کی پرچی والا نعرہ بلند کرتا جی حضور، بادشاہ سلامت کہتے چور سپاہی کا پتہ لگاؤ۔ وزیر اندازے سے ٹھیک پتہ لگالیتا تو وہ جیت جاتا لیکن غلطی ہونے پر وزیر کی چھترول ہوتی، پھر دوبارہ کھیل کھیلا جاتا اگر چور پکڑا جاتا تو سپاہی سے چور کی چھترول کروائی جاتی لیکن وزیر نہ بتا پاتا تو پھر وزیر کی شامت اور چور سپاہی بچ جاتے۔

بچپن کے یہ کھیل اب بھی کھیلے جارہے ہیں لیکن بڑے پیمانے پر، چور تو ہر دل میں چھپا بیٹھا ہے لیکن پتہ لگانا مشکل ہے۔ جہاں سب ثبوتوں کے ساتھ چور موجود ہیں وہ بھی کسی نہ کسی پینترے سے بچ نکلتے ہیں نجانے نظام میں خرابی ہے یا پھر چور نقلی ہیں۔ بیانیے تو بہت ہیں چوروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے لیکن عمل درآمد صفر ہے یا پھر کہانی کو الجھایا جارہا ہے۔

اس چور سپاہی کے کھیل میں ایک بہت ہی دلچسپ خبر پڑھنے کو ملی، کچھ ایسے بھی ہیں جنھوں نے ساری زندگی نہ چوری کی نہ غلطی کی وہ صرف گرفتاری کا مزا چکھنے کے لیے مصنوعی طریقے سے گرفتاری کروا کر خواہش پوری کی۔ یہ ہیں ایک محترمہ برطانیہ کی رہنے والی ریاست مانچسٹر سے تعلق ہے۔ نام ہے جوزی برڈس ترانوے سالہ خاتون کا کہنا ہے کہ وہ قانون کی گرفت میں آنے کا ذاتی تجربہ کرنا چاہتی تھیں کیونکہ انھوں نے تمام زندگی اچھے طریقے سے گزار دی۔

جوزی اس خواہش کو اپنی آخری خواہش قرار دے رہی تھیں ان کی اس انوکھی خواہش پر دو آف ڈیوٹی پولیس افسران نے ہتھکڑیاں پہنائیں جو انھوں نے خوشی خوشی پہنیں، انھیں چائے اور کیک پیش کرنے سے پہلے بہت سختی سے تفتیش بھی کی گئی۔ پولیس افسران نے ان پر فرضی چوری کا الزام بھی لگایا، لگائے گئے الزام کے مطابق جوزی نے کواوپ میں چوری کی ہے جبکہ جوزی کا کہنا تھا کہ وہ کبھی کواوپ گئی ہی نہیں۔ انھیں باقاعدہ ہتھکڑیاں لگا کر پولیس کی گاڑی مین بٹھا کر پولیس اسٹیشن لیجایا گیا جہاں ان سے سختی سے پوچھ گچھ بھی کی گئی۔

جوزی کی نواسی کا کہنا ہے کہ حوالات کی سیر سے واپسی پر وہ بہت خوش تھیں اور انھوں نے اس تجربے کے حوالے سے گفتگو کر تے ہوئے وقت گزارا۔ ایک یہ ہیں جو چور نہ ہوتے ہوئے بھی سزا کا مزا لے رہے ہیں اور ایک نیب چور پکڑتی ہے جو چور ہوتے ہوئے بھی چوری کے منکر اور ہیرا پھیری کرتے رہتے ہیں۔ پتہ نہیں چور سپاہی کا پتہ کون لگائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).