پرانی انارکلی میں ناصر کاظمی کا گھر


شہر لاہور تیری رونقیں دائم آباد

تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو

ناصر کاظمی ہجرت کے بعد لاہور آئے تو ان کے خاندان کو سر چھپانے کے لیے پرانی انارکلی میں ٹھکانہ ملا۔ یہ لوگ جہاں سے آئے تھے وہاں ثروت ہی ثروت تھی لیکن نئی سرزمین پر نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ناصر کی عمر اس وقت 22 برس تھی۔ ان کے والد انبالہ چھوڑنا نہ چاہتے تھے لیکن بیٹے کی چشم بصیرت آنے والے دور کی واضح تصویر دیکھ رہی تھی۔ اس نے ایک روز کہا ”ابا جان آپ یہاں سے ایسے نکلیں گے کہ اپنا حقّہ تک نہیں اٹھا سکیں گے۔“

شومئی قسمت کہ یہ پیش گوئی درست نکلی۔ برے حال بانکے دہاڑے انھیں گھربارچھوڑنا پڑا، یہ وہی شہر تھا جس کے بارے میں ناصر نے کہا :

انبالہ ایک شہر تھا سنتے ہیں اب بھی ہے

میں ہوں اسی لٹے ہوئے قریے کی روشنی

اے ساکنانِ خطہ لاہور! دیکھنا

لایا ہوں اس خرابے سے میں لعلِ معدنی

لاہور میں پہلے پہل فین روڈ پر ایک کوٹھی میں پناہ ملی لیکن پھر وہ خالی کروا لی گئی کہ کسی افسر کو الاٹ ہوگئی تھی۔ اس کے بعد ناصر کاظمی کا کنبہ پرانی انارکلی کے اس گھر میں اٹھ آیا۔ ناصر نے اپنی ڈائری میں لکھا:

چرچ روڈ کے پیچھے

تھوڑی دُور تھانے سے

اِک گلی ہے اندھیاری

اُس گلی کے کونے پر

کُہنہ لال اینٹوں کا

گھر ہے اِک پرانا سا

میرا گھر۔ پرانی انارکلی۔ 3 بھگوان سٹریٹ۔ لاہور

اس گھر میں جو دو کمرے ناصر کاظمی کے خاندان کو ملے، ان میں سے ایک ان کے تصرف میں تھا۔ اس مکان میں ناصر کے اہل خانہ نے کڑا وقت کاٹا، مصائب کی یورش نے چین سے رہنے نہ دیا۔ اس عہد کی تصویر ناصر کاظمی کی خالہ صغرا بی بی نے بڑے موثر انداز میں کھینچی ہے :

 ”۔  جس طرح ہو سکا ناصر کے والد نے گزارا کیا۔ کیونکہ سب نازک مزاج اور کھلی ہوا کے رہنے والے تھے اس واسطے تمام دن، صبح شام، موری میں پانی ڈالتے اور دھوتے کہ بدبو نہ آئے۔  اُدھر پیسے کی تنگی۔ اشرفیوں کا ہار توڑا، ایک ایک کر کے فروخت کیا اور وقت گزارا۔ ناصر نے نوکری کی جستجو شروع کر دی۔ سیالکوٹ میں ملازم بھی ہو گیا۔ مگر اچانک ناصر کے والد بیمار ہو کر ہسپتال داخل ہو گئے۔  ناصر کو اطلاع دی گئی۔ ناصر فوراً پہنچا مگر اگلے روز ہی والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔

اس دوران ناصر نے اپنا نیا سلسلہ شروع کیا اور ”اوراقِ نو“ نکالنے کی ٹھانی۔ پیسہ نہیں تھا اور نہ ہی والد صاحب کی پنشن ملتی تھی۔ والدہ کے زیورات لے جانا شروع کر دیے۔  16 تولے کے سونے کے کڑے، چمپا کلی، نتھ اور آرسی وغیرہ۔ چاندی کے بہت زیور تھے جو فروخت کر کے گھر کا گزار ا بھی کرتے رہے۔  والدہ نہایت غم زدہ تو تھیں ہی مگر ناصر کی بے روزگاری اور آوارہ گردی دیکھ کر دل برداشتہ ہو گئیں۔  تمام دن قرآن شریف اور دعائیں پڑھنا اُن کا شغل ہو گیا۔ آخر نہ برداشت کر سکیں۔  دماغ کی رگ پھٹ گئی اور پانچ دن کی علالت کے بعد مر گئیں۔  ”

ناصر کاظمی کے پہلے شعری مجموعے ”برگِ نے“ میں شامل یہ شعربھی اسی غم کدے میں لکھے گئے :

یہاں تک بڑھ گئے آلامِ ہستی

کہ دل کے حوصلے شل ہوگئے

کہاں تک تاب لائے ناتواں دل

کہ صدمے اب مسلسل ہوگئے ہیں

ناصر کی ڈائری سے یہ اقتباس بھی ملاحظہ ہو:

لاہور میں غیر معمولی بارش۔ دفتر سے آکر گھر سے نکلا ہی تھا کہ سیلاب پرانی انارکلی کے تھانے تک آ پہنچا۔ گھر گیا تو پانی دروازے تک آچکا تھا۔ ایسا سیلاب لاہور میں کبھی نہ دیکھا تھا۔ رات کو کھانا کھا کر لیٹا ہی تھا کہ انتظار اور سعید محمود پانی میں بھیگتے ہوئے گھر آئے اور مجھے تانگے میں بٹھا کر باہر لے گئے۔

دشت سے چل کر تا نگر پہنچا

اب کے سیلاب اپنے گھر پہنچا

ناصر نے اس گھر میں رہ کر بہت رنج اٹھائے، دکھ بھوگے، روکھی سوکھی کھائی، ان کی ڈائری میں ایک دن سادہ پانی سے ناشتہ کرنے کا ذکر ہے، ایک اور جگہ لکھا :دھوبی نے ادھار کپڑے دینے سے انکار کردیا۔ میلے کپڑے پہن کر دفتر ”امروز“ گیا۔ یا پھر ”کل رات نور عالم میرے ہاں سو گیا۔ مچھر اور کھٹمل اسے کاٹتے رہے۔  ساری رات وہ سو نہ سکا پھر بخار ہوگیا۔ افسوس میں اپنے پیارے دوستوں کو آج ایک رات مہمان بھی نہیں رکھ سکتا۔ لیکن کتنے بلند اور پیارے ہیں میرے بعض دوست۔ “

یہ گھر چھوڑنے پر ناصر کاظمی کے تاثرات یوں سامنے آئے :

 ” مارچ 1957 کو پرانی انارکلی کے زنداں سے رہائی ہوئی۔ اس گھر میں ہم نے اس قدر تکلیفیں اٹھائی ہیں کہ ان کے تصور سے دل کانپتا ہے۔  میرے والدین نے اسی گھر میں وفات پائی۔ 29 مئی 1949 کو والد اور 26 ستمبر 1949 کو والدہ ہمیں چھوڑ گئیں۔ “

ناصر کے عزیز دوست اور ممتاز ادیب انتظار حسین نے اس گھر کاذکر اپنے مخصوص اسلوب میں کیا ہے :

ویسے کبھی کبھی ناصر کو گھر کی طرف جاتے ہوئے بھی دیکھا جاتا تھا۔ اس گھر کی صورت یہ تھی کہ پرانی انارکلی کی ایک گلی میں کسی پرانے سے مکان کا بس ایک کمرہ ناصر کے تصرف میں تھا۔ یہ کمرہ ایسا تھا کہ دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں نظر آتا تھا۔ ساز و سامان کے نام کچھ کتابیں کچھ کاغذ جہاں تہاں بکھرے ہوئے۔  ایک پلنگ اور ایک تتر بتر بستر۔  ”کلیاتِ میر“ اس بستر کا تکیہ تھا۔ والد صاحب پہلے ہی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔  والدہ انہیں برسوں میں دنیا سے سدھاری تھیں۔  ناصر اب اکیلا تھا۔ اس کے سر پر کوئی سایہ نہیں تھا۔ ہاں وہ خود ایک چھوٹے بھائی کے سر کا سایہ تھا۔ جانے وہ اس ذمے داری کو کیسے نبھاتا تھا۔  ”

اے حمید نے بھی ناصر کا کمرہ دیکھ رکھا تھا۔ اس کا نقشہ انھوں نے کچھ اس طرح سے کھینچا ہے۔  :

 ” ناصر کاظمی کو پرانی انارکلی میں ایک کمرہ الاٹ ہوگیا تھا۔ وہاں بجلی نہیں تھی۔ وہ رات کو موم بتی جلا کر لکھتا پڑھتا۔ ایک پرانا سا پلنگ تھا۔ سرہانے کی طرف ایک میز تھی جس پر جلی ہوئی موم بتیوں کی موم جمع تھی۔ الماری کے دونوں پٹ غائب تھے۔

وہاں چند ایک گرد آلود کتابیں تھیں۔  بے ترتیبی تھی۔ بے یقینی تھی۔ کس ٹکڑے کو کس ٹکرے کے ساتھ جوڑیں؟ کس چراغ کو کس چراغ سے روشن کریں۔  کہاں تھے کہاں آگئے۔  اب کہاں جائیں گے؟  ”

اس گھر کے ساتھ ناصر کاظمی کی تلخ یادیں اپنی جگہ حقیقت ہیں لیکن تخلیقی اعتبار سے یہ دور بہت ثمرآور رہا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ”برگِ نے“ اسی گھر میں تخلیق ہوا۔  ”سُر کی چھایا“ اور ”نشاطِ خواب“ بھی یہیں لکھی گئیں۔  دیوان کا کچھ حصہ بھی یہیں رقم ہوا۔ میر تقی میر کے کلیات کا انتخاب بھی اسی گھر سے یادگار ہے۔  اس کمرے میں ناصر نے میر کے کلیات (آسی ایڈیشن) کو خوب ڈوب کر پڑھا۔ سوتے وقت یہ کلیات بستر کے تکیے کا کام بھی دیتا۔

ناصر نے اپنی ڈائری میں یہ اطلاع بھی دی:

میر کے چار دیوانوں کا انتخاب مکمل کیا۔

فرہاد کے ذمے میں عجب کوہکنی ہے

(میر)

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3