عمران خان! عوام تبدیلی نہیں استحکام چاہتے ہیں


\"uzma\"لیڈر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو لیڈر بننے کے لیے حالات خود پیدا کرتے ہیں اور دوسرے وہ جنہیں حالات لیڈر بنا دیتے ہیں۔ عمران خان دوسری طرح کے لیڈر ہیں۔

عمران خان کے سیاسی عروج کی کہانی کا آغاز سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے زوال سے شروع ہوتا ہے۔ 2006 میں مشرف صاحب کی مقبولیت آسمان سے باتیں کر رہی تھی۔ معاشی صورت حال مسلسل بہتری کی طرف گامزن تھی۔ عالمی سطح پر ملکی وقار میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا۔ فوجی اقتدار کے باوجود جمہوری اور سیاسی سرگرمیاں جاری تھیں۔ نئے بلدیاتی نظام کی صورت میں اقتدار کے نچلی سطح تک منتقل ہونے کے عمل کا آغاز بھی ہو چکا تھا۔ دہشتگردی کے خلاف آپریشن چل رہے تھے اور اعتدال پسند روشن خیالی کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ الغرض سب اچھا تھا۔ لیکن مشرف صاحب نے یکے بعد دیگرے چند ایسے فیصلے کیے کہ جن سے ان کی مطلق العنانیت کا برملا اظہار ہوتا تھا۔ اکبر بگٹی کی ہلاکت، لال مسجد آپریشن، چیف جسٹس افتخار چوہدری کی برطرفی، سانحہ بارہ مئی اور پھر ایمرجنسی کے نفاذ جیسے واقعات کے باعث عوام مشرف صاحب کی طاقت سے خائف اور بد گمان ہو گئے تھے اور قانون کی حکمرانی اور بحالیِ جمہوریت کے خواب دیکھنے لگے تھے۔ وکلا تحریک نے عوام کی اس خواہش کو احتجاج کا راستہ دکھایا اور پھر 2008 کے الیکشن کے نتائج نے مشرف کو مسندِ اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔

پیپلز پارٹی کا دورِ اقتدار بحالیِ جمہوریت سے خوشگوار امیدیں وابستہ کرنے والے عوام کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا۔ لوڈ شیڈنگ کا عفریت بے قابو ہو گیا۔ کرپشن کی داستانیں زبان زد عام ہوئیں۔ امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب تھی۔ حکومت دہشت گرد حملے اور کراچی ٹارگٹ کلنگ روکنے میں بری طرح ناکام تھی۔ روز افزوں مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی تھی۔ مشرف وکلا تحریک کی وجہ سےرخصت ہوئے لیکن وکلا تحریک مشرف کے جانے سے رخصت نہیں ہوئی بلکہ زرداری دور میں بھی جاری رہی کیونکہ زرداری صاحب کو ڈر تھا کہ افتخار چوہدری بحال ہوتے ہی قومی مفاہمتی آرڈیننس کو غیر موثر کر دیں جس کے سہارے وہ جیل سے ایوان اقتدار میں آن پہنچے تھے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان نوے کی دہائی والی رسہ کشی کی سیاست پھر سے شروع ہو چکی تھی۔ ان حالات کے باعث لوگوں میں اس احساس نے جنم لیا کہ سیاستدانوں نے انہیں دھوکا دیا ہے۔ انہیں قانون کی حکمرانی کا خواب دکھا کر امن و امان اور معاشی خوشحالی سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ جمہوریت کی بحالی کے پہلے دو سال کے دوران ہی عوام دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے رویوں سے بری طرح متنفر ہو چکے تھے۔

شاید اس دور میں مشرف صاحب اور ق لیگ ایک صفحے پر موجود ہوتے تو لوگوں کو عمران خان کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ لیکن تبدیلی کا میدان عمران خان کے لیے خالی تھا۔ \”عمران خان نہیں تو اور کون؟\”، لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے۔

جون 2010 میں لاہور میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 160 میں ضمنی انتخابات کروائے گئے۔ یہ سیٹ 2008 کے عام انتخابات میں منتخب ہونے والے نواز لیگ کے رکن اسمبلی رانا مبشر اقبال کی جعلی ڈگری کیس میں نااہلیت کے سبب خالی ہوئی تھی۔ اس انتخاب میں تحریک انصاف کی پرفارمنس سب کے لیے حیران کن تھی۔ نواز لیگ کا گڑھ سمجھے جانے والے اس حلقہ میں کامیابی کا سہرا تو مسلم لیگ ن کے امیدوار سیف الملوک کھوکھر کے سر رہا جنہوں نے اٹھائیس ہزار ووٹ حاصل کیے لیکن تحریک انصاف کے امیدوار ظہیر عباس کھوکھر کا لگ بھگ بیس ہزار ووٹ لے جانا ایک واضح اشارہ تھا کہ لوگوں نے ایک نئی سیاسی جماعت کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ اکتوبر 2011 میں پی ٹی آئی کے لاہور جلسہ میں لوگوں کی جوق در جوق آمد نے سیاسی ایوانوں میں ہلچل مچا دی۔ عوام کے دلوں میں موجزن تبدیلی کی خواہش نے سونامی کا روپ دھار لیا۔ لاہوری نوجوانوں کے جوش و جذبے نے ایک ہی رات میں سولہ برس سے تانگہ پارٹی کا درجہ رکھنے والی پاکستان تحریک انصاف کو ملک کی بڑی سیاسی قوت بنا دیا اور 2013 کے الیکشن میں پی ٹی آئی ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی جبکہ اقتدار کی مسند نواز شریف کے ہاتھ آئی۔

مسلم لیگ نواز کہنہ مشق سیاستدانوں کی جماعت ہے جسے الیکشن کی سیاست کا وسیع تجربہ ہے۔ 2011 میں جیسے ہی پاکستانی یوتھ کا جھکاؤ عمران خان کی طرف واضح ہونے لگا تو نواز لیگ نے بر وقت اور برق رفتار اقدامات کے ذریعے اس توازن کو اپنے حق میں بحال کرنے کوشش کی۔ یہ کاوشیں عام انتخابات میں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد نواز لیگ نے پیپلز پارٹی کے طرز عمل کے برخلاف قدرے ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا۔ زرداری حکومت نے ملک کو درپیش مسائل کی طرف بے اعتنائی کا رویہ اختیار کیے رکھا تھا لیکن نواز لیگ نے ان مسائل کے حل کے لیے اقدامات کرنے شروع کیے جس کے باعث امن و امان اور معاشی صورت حال میں قدرے بہتری آئی۔ ان اقدامات کے حقیقی نتائج کا اندازہ تو بہر طور کچھ عرصے بعد ہی ممکن ہو سکے گا لیکن واضح امر یہ ہے کہ اس وقت عوام انقلاب نہیں بلکہ پالیسیوں کا تسلسل چاہتے ہیں۔ عوام دہشتگردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا نواز شریف 2018 تک لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر پاتے ہیں یا نہیں۔ وہ سی پیک منصوبہ کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے منتظر ہیں۔ شریف دور کی عوامی ترجیحات زرداری دور سے مختلف ہیں۔

عمران خان تبدیلی کی خواہش کی پیداوار تھے۔ لیکن اس وقت عوام ملک میں تبدیلی نہیں استحکام چاہتے ہیں۔ عمران خان عوامی امنگوں میں آنے والی اس تبدیلی کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں اور 2011 والے انقلابی انداز کو جاری رکھنے پہ مصر ہیں۔ عوام ان کا ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں کیونکہ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر نہیں ہے۔ جو لیڈر حالات کے ہاتھوں پیدا ہوتے ہیں وہ اکثر حالات کے ہاتھوں ہی مارے جاتے ہیں۔ خان صاحب بھی اسی راستے پر گامزن ہیں۔ چند روز تک موجودہ احتساب تحریک بھی دھاندلی دھرنے اور سول نافرمانی کی کال کی طرح اپنی موت آپ مر جائے گی اور ملکی مسائل پر عمران خان کے شعور کے حوالے سے ایک اور سوالیہ نشان چھوڑ جائے گی۔ اب اگر خان صاحب خود تبدیلی کو نہ اپنا سکے تو شاید ان کی وہ شاندار سیاسی تحریک جس نے چند سال قبل نوجوانوں کے دلوں کو جوش سے بھر دیا تھا، ایک بہت المناک انجام سے دوچار ہو گی۔ اور اس سانحے پر سب سے زیادہ افسوس ان ووٹرز کو ہو گا جنہوں نے 2010 میں لاہور کے حلقہ پی پی 160 میں آپ کو بیس ہزار ووٹ دئیے تھے جن میں سے چند ووٹ ہمارے گھرانے کے بھی تھے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments