پاک افغان میچ اور غصیلے قوم پرست


افغانستان ایک علیحدہ ملک ہے۔ عشروں سے جنگ زدہ، امن اور خوشحالی عنقا ہیں۔ ناپید ہو چکی بائی پولر دنیا کے دو مست ہاتھیوں سوویت یونین اور امریکہ کی باہمی زور آزمائی کا اکھاڑہ بنا رہا۔ یہ افغانوں کا انتخاب نہ تھا۔

اس اشتراکی اور سرمایہ دارانہ آویزش میں ہم نے بھی امریکی پراکسی کے طور پر بھرپور حصہ ڈالا۔ ہم اگر امریکہ کے بندوق بردار بنے تو ہماری ہم مذہب عرب اقوام بالخصوص سعودیوں نے اس “امریکی جہاد” میں ریالوں کے عطیے دے کر حصہ لیا۔

پاکستان میں رائے عامہ کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اسے حق و باطل کا معرکہ بنا کر پیش کیا گیا۔ اسی خاطر افغان مہاجرین کے لئے ہم انصار بھی بنے اور عرب و افریقہ سے آنے والے مجاہدوں کے میزبان بھی۔

اس کام کا معاوضہ حکومت اور ریاست نے وصول کیا۔ ریاست کی نمائندگی ہمارے ہاں سلامتی کے ذمہ دار ادارے کرتے ہیں۔ 80 کی تو ساری دہائی میں حکومت بھی براہ راست انہی کی رہی۔ رائے عامہ ہموار کرنے کا کام مذہبی جماعتوں کو آؤٹ سورس کیا گیا۔ اس میں رکاوٹ سمجھے جانے والے پشتون قوم پرست بالخصوص اے این پی پر غداری کے لیبل بھی لگے۔

جن نتائج سے ولی باغ والے خبردار کرتے رہے اور جس پرائی آگ سے اپنی جھونپڑی کو لاحق خطرے سے آگاہ کرتے رہے اس پر ریاست نے کان نہ دھرے۔ عام پاکستانی اس حرف نصیحت سے متاثر نہ ہوں کو یقینی بنانے کے لئے جوابی بیانیہ

اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں

تو ‘پاکستان’ کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے

کی شکل میں پیش کیا گیا۔

افغانستان میں بھڑکی آگ کے نتیجے میں بے گھر و بے در ہونے والے افغانوں کے لئے دروازے ہم نے ہی کھولنے تھے۔ ایسا کرنے کی متعدد وجوہات اور مجبوریاں تھیں۔ 1) ہمیں پیسے درکار تھے، 2) مذکورہ بالا جہادی بیانیے اور مجاہدین و مہاجرین کی نصرت کے تصور کی صورت گری کے لئے یہ ضروری تھا، 3) “جارح سرخ ریچھ” کو روکنے کی تگ و دو کرتی “تہذیب سفید” کا “انسان دوست” امیج قائم کرنے کا تقاضہ تھا جس میں ہماری بھی شامل باجہ حیثیت تھی، اور 4) پناہ گزینوں کے حوالے سے کچھ عالمی قانونی و اخلاقی مجبوریاں بھی تھیں۔

درہ آدم خیل میں پاکستان کی طرف پشت کر کے بندوق سے افغانستان پر شست لگاتے ہنری کسنجر کی تصویر کے نیچے aiming at the whole idea of communism کی کیپشن ہماری یادداشت میں تازہ ہے۔ اور بتاتی ہے کہ ابلاغ عامہ کیسے ایک سائنس میں ڈھل چکی جو جزیات کی تفصیل کے ساتھ نتائج حاصل کرنے کا اندازہ لگا سکتی ہے۔ جب ریاستیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ذہن سازی کرتی ہیں تو ان کا مقابلہ آسان نہیں ہوتا۔ محض مؤقف کی صداقت یہ جنگ لڑنے کے لئے کافی زاد راہ نہیں ہوتی۔ درست مؤقف سے بس یہ اطمینان رہتا ہے کہ تاریخ کبھی نہ کبھی آپ کی سچائی پر مہر تصدیق لگا دے گی۔ ولی باغ کی اس زمانے کی نامقبول رائے وہی ہے جس کو ہمارے فوجی سربراہ نے حال ہی میں جرمنی میں اپنایا تھا۔

قصہ مختصر کہ افغانوں کی امداد بے غرضی و ایثار نہیں، ریاست کے سیاسی، عسکری، تزویراتی اور معاشی اہداف کا تقاضہ تھا۔ عوامی سطح پر اخوت کے جذبات پائے جاتے ہوں گے لیکن ان کی صورت گری بھی ریاستی منشا و مقصد کے تحت ہوئی۔ اب جب ریاست نے ان کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اخوت کے یہ جذبات بھی حقیقت پسند ہو چکے ہیں۔

اس ساری صورتحال میں اگر ہندوستان نے کہیں افغانوں میں پاکستان مخالف سرمایہ کاری کی تو اس پر اچنبھا کیسا۔ اور اس سرمایہ کاری سے متاثر چند نوجوان افغانوں نے پاکستان کے بارے میں غصہ پالا تو دکھ کیسا؟ ہم بھی ایسا ہی کرتے۔ یا ایسا کرنے کو قابل فخر کارنامہ سمجھتے۔ آج تک اعتزاز احسن سے خالصتانی مجاہدین کی ایک تصوراتی فہرست دہلی کو دینے کی تہمت کا داغ نہیں گیا۔ اگر ریاستی مفادات کے تحت حریف ملک کے خلاف سفارتی و جاسوسی کارروائیاں کرنا غلط ہے تو بجائے اعتزاز کو مطعون کرنے کے تعریف کی جانی چاہئے۔ اعتزاز نے واقعی ایسا کیا یا نہیں، یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔

اب ایک جنگ زدہ، غریب ملک، ایک جدا قوم کو اگر کرکٹ کی صورت میں خوشی کے مواقع میسر آئے اور اس خوشی میں انہوں نے اپنے ایک حقیقی یا تصوراتی حریف کے خلاف میچ کو ایسے ہی جذباتی طور پر لے لیا جیسے پاکستانی ہندوستان کے ساتھ میچ کو یا آسٹریلوی انگلینڈ کے خلاف میچ کو لیتے ہیں تو میرے قوم پرست ہم وطنوں کے منہ سے کف کیوں نکلنے لگی؟

اس پر بھی اعتراض ہوا کہ افغان (عام لوگ) صرف پاکستان کو ہرانے کے خواہشمند ہیں تو اس کا غصہ ہے۔ تو کیا آپ افغانستان کو ہرانے کے خواہشمند نہیں؟ اور کیا ان کو بھی غصے کا ایسا ہی حق ہے؟ اور نہیں تو کیوں نہیں کیونکہ وہ آپ کے ہاں پناہ گزین کیمپوں میں پلے بڑھے اور انہوں نے کرکٹ ادھر سے ہی سیکھی؟ کہیں آپ ان کو اپنی ایسی بلی تو نہیں سمجھتے جو اب آپ کو ہی میاؤں کرتی نظر آتی ہے؟

ایک دلچسپ مشاہدہ یہ بھی ہے کہ حکومت سے لے کر لوگوں تک ہماری قومی و ملی غیرت کی کڑھی میں ابال افغانوں جیسی کسی نادار قوم کے ردعمل پر ہی آتا ہے۔ ورنہ مالدار عربوں سے لے کر شاندار امریکہ تک کوئی بھی دھتا بتا دے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تھوڑی سی اپنی یادداشت کھنگالیں اس کی درجنوں مثالیں یاد آ جائیں گی۔ میں اس تعفن زدہ مدفن کو کھودنا نہیں چاہتا۔

آخر میں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ادنیٰ قوم پرستانہ غصے کی رو میں (جو صرف مخصوص اقوام یا گروہوں کے ضمن میں بھڑکتا ہے) “محب وطن” پاکستانیوں نے افغانوں کو جی بھر کر گالیاں دیں لیکن اس پوسٹ میں شامل تصویر جیسے مناظر کو نظر انداز کر گئے جہاں دونوں ملکوں کے کرکٹ کے سچے سُچے شائقین نے ساتھ ساتھ کھڑے رہ کر کرکٹ کے ایک کانٹے دار اور خوبصورت میچ سے بھرپور لطف اٹھایا۔

مبارکباد پاکستان، ویل پلیڈ افغانستان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).