”چوہدری نثار سے شہباز شریف وقت مانگ رہے ہیں وہ نہیں دے رہے“


انتخابات میں شکست کے بعد مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جعلی انتخابات کو نہیں مانتے ان لوگوں کو پارلیمنٹ سے حلف نہیں اُٹھانے دیں گے۔ چشم فلک نے دیکھا کہ حلف والے دن نہ صرف مولانا فضل الرحمان کا بیٹا حلف اُٹھا رہا تھا بلکہ اپنے بیٹے کو انھوں نے اسی جعلی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کے لیے اپوزیشن کا متفقہ امیدوار بھی نامزد کروا دیا کہانی یہیں نہیں رکتی آگے بڑھتی ہے صدراتی انتخابات میں مولانا فضل الرحمان اپوزیشن جماعتوں کے درمیان سہولت کاری کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ اُن کے ذمہ حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن کا متفقہ امیدوار لانا تھا متفقہ امیدوار تلاش کرتے کرتے انھوں نے اپنے آپ کو صدارتی امیدوار ڈکلیر کر دیا۔ کیونکہ پارلمینٹ سے باہر رہنا مولانا کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے۔

بجٹ پاس ہونے کی تاریخ 29 جون تھی 26 جون کو مولانا نے اپوزیشن کی اے پی سی بلائی۔ طویل سیشن چلا۔ عوام کو امید تھی کہ اپوزیشن اجلاس کے اختتام پر خوش کُن اعلان کرے گی۔ حکومت کی عوام دُشمن پالیسوں کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کرے گی اجلاس کے اختتام پر اے پی سی کی جانب سے کہا گیا کہ عوام دشمن بجٹ پاس نہیں ہونے دیا جائے گا اپوزیشن کے اس اعلان کی بازگشت فضا میں ہی تھی کہ 28 تاریخ کو سپہ سالار این ڈی یو میں معشیت پرلیکچر دیتے ہیں۔ وہ حکومتی فیصلوں کی تائید کرتے ہیں۔ پھر بجٹ با آسانی پارلمینٹ سے پاس ہو جاتا ہے۔

انہی صفحات پر پہلے لکھ چُکا ہوں کہ اپوزیشن متحد نہیں ہے۔ ن لیگ اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ میاں نواز شریف چاہتے ہیں کہ ن لیگ کی قیادت ان کی بیٹی مریم نواز سنبھالے جبکہ ن لیگ کے اندر ”انکلز گروپ“ کی شدید خواہش ہے کہ مریم نواز ”ووٹ کو عزت دو“ کے بیانیہ سے پیچھے ہٹ جائے اور شہباز شریف کی پالیسوں کو فالو کرے۔

مریم نواز کو خطرہ انکل شہباز شریف سے نہیں اُن انکلز سے ہے جو چاہتے ہیں کہ درمیانہ راستہ نکال کر نیویں نیویں ہو کر نکلا جائے۔

میاں نواز شریف چونکہ جیل میں ہیں اور مریم نواز اس وقت چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے۔ ایک طرف انھیں پارٹی کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانا ہے اور دوسری طرف اپوزیشن کو متحد رکھنا ہے۔ سینیٹر پرویز رشید واحد شخص ہیں۔ جو تن تنہا اس وقت مریم نواز کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پرویز رشید کی جمہوریت پر کمٹمنٹ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کے اندر پارٹی کے سئنیر رہنما پرویز رشید کی جمہوریت پر قائم رہنے کی پالیسی کی وجہ سے انھیں ناپسند کرتے ہیں۔ مریم نواز کو خطرہ شہباز شریف سے نہیں اُن انکلز سے ہے جو جلد یا بدیر ان کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں۔ انکلز کا یہ وہ گروپ ہے جنھوں نے اچھے وقتوں میں فوائد سمیٹے ہیں اور کبھی سختیاں برداشت نہیں کی۔

ن لیگ کے ان انکلز میں سے ایک انکل بتا رہے تھے کہ ن لیگ کو مشرف دور کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے اسی میں ہماری بقاء ہے۔ میاں شہباز شریف سمیت خواجہ آصف، احسن اقبال، رانا تنویر، رانا ثناءاللہ اور شاید خاقان عباسی اسمبلی میں تقریریں حکومتی فیور میں کرتے ہیں اور اُنھیں یقین دہانی کرواتے ہیں کہ ہم میچور اپوزیشن کریں گے مگر اسمبلی سے باہر نکل کر وہ دکھاوے کے لیے بالکل اُلٹ لہجہ اختیار کر لیتے ہیں۔

سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار کے ایک قریبی ذریعے کا کہنا تھا کہ شہباز شریف چوہدری نثار سے ملاقات کے لیے وقت مانگ چُکے ہیں مگر چوہدری وقت نہیں دے رہا۔

رہی بات حکومت کے خلاف اپوزیشن کے اتحاد کی تو یہ اتحاد عملی طور پر بکھر چُکا ہے پیپلز پارٹی کسی بھی صورت میں حکومت کے خلاف سڑکوں پر نہیں نکلے گی۔ سندھ حکومت ان کی مجبوری ہے۔ وہ کسی بھی صورت سندھ میں گورنر راج برداشت نہیں کریں گے۔ ملک کے وسیع تر مفاد میں وہ اپوزیشن سے علحیدگی اختیار کر لیں گے۔

کوٹ لکھپت جیل کے قیدی نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا تو پھر ان کی ہدایات کے مطابق مریم نواز کو یہ جنگ اکیلے لڑنا ہو گی۔ اس جنگ میں مریم نواز کا ساتھ انکلز نہیں دیں گے وہ کارکن دیں گے جو ان انکلز سے بھی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔

ن لیگ کے ایک کارکن کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف جلا وطنی کے دور میں جب وطن واپس آئے تو ان انکلز میں سے سڑکوں پر کوئی نہیں نکلا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہم ماریں کھا رہے تھے اور احسن اقبال زیرو پوائنٹ پر کھڑے ہو وکٹری کا نشان بنا کر فوٹو سیشن کر کے یہ جا وہ جا۔

مریم نواز کی ثابت قدمی ہی ن لیگ کو زندہ رکھ سکتی ہے۔ دور اندیشی ہی سے وہ پارٹی کو ٹوٹ پھوٹ سے بچا سکتی ہیں۔ تاریخ کے اوراق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مشکل وقت میں جن لوگوں کے قدم ڈگمگاتے نہیں وہی امر ہوتے ہیں۔ جو قدم قدم پر مصلحت کا شکار ہوتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں گمنام ہو جاتے ہیں۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui