لفظ سلیکٹڈ عمران خان کی چڑ ہے یا چال؟


خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ روز ٹیلی وژن کے آگے بیٹھ جاتے ہیں اور ٹی وی شوز میں اینکرز کی گفتگو سننے کے بعد، وزیروں اور مشیروں کی میٹنگ کال کیے بنا خود ہی قوم سے خطاب کو چل پڑتے ہیں۔ تاکہ جو تنقید ہوئی یا کوئی الزام عائد ہوئے ان کا جواب خود ہی دیا جائے جبکہ اتنی بڑی وزیروں مشیروں کی فوج ایک دوسرے کا منہ تکتی رہ جاتی ہے۔ یہ بات گزشتہ دنوں ایک رکن پارلیمنٹ سے بات چیت کے دوران سننے کو ملی۔ جو وزیر اعظم عمران خان کی میڈیا سٹریٹجی کے ساتھ ساتھ پارلیمانی اجلاسوں میں دفاعی بیانیے سے بھی خاصے غیر مطمئن نظر آتے تھے۔

پھر معلوم ہوا کہ خان صاحب نے اپنے قریبی چند لوگوں کو جمع کیا اور انہیں پارٹی کے بیانیہ کو مضبوط کرنے کے لئے کہا۔ مراد سعید کی تعریف کی گئی۔ آج کل وہ اپوزیشن کے گلے میں اٹکی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔ جب بھی ان کی موجودگی میں حکومت پر کوئی اعتراض ہوتا ہے تو مراد سعید اپنی شعلہ بیانی سے ناصرف سب کو لاجواب کرتے ہیں بلکہ ان کے پاس ثبوت کے طور پر باقاعدہ ڈاکیومینٹ ہوتے ہیں یعنی دو چار انصافی ارکان جو مکمل تیاری کے ساتھ آتے ہیں اسمبلی میں، مراد سعید ان میں سرفہرست ہیں۔ بات موضوع سے ہٹ جائے گی ورنہ میں لکھتی کہ مراد سعید اس وقت جو ایسے زبردست تیاری کرکے آتے ہیں تو ان کو کون کون لوگ رہنمائی فراہم کرتے ہیں لیکن فی الحال ہم مراد سعید کو ہی کریڈٹ دیتے ہیں۔

تو خان صاحب نے میٹنگ میں موجود ممبران سے مشورہ کیاکہ آخر کس طرح اپوزیشن کی تنقید اور طنز کے نشتر سے خود کو بچایا جائے؟ اسی سے اندازہ لگائیں کہ عمران خان کو اپنی پارٹی میں کمزوریوں کا شدت سے احساس ہے اور وہ اس پر پردہ ڈالنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ ان کمزوریوں سے جان چھڑانا مشکل ہے کیونکہ اگر ایسا کیا تو پارٹی ہی آدھی رہ جائے گی تو اس کا حل یہی نکالا گیا کہ کور اپ یا ماسک پالیسی بنائی جائے یا یوں کہیں کہ مخالفین کو بیکار باتوں میں الجھایا جائے اور اپنا الو سیدھا کیا جائے۔

سننے میں آیا ہے کہ لفظ ”سلیکٹڈ“ دراصل ان کی اسی مخالفین الجھاؤ پالیسی کا شاہکار ہے۔ مخالفین کو لگے کہ عمران خان اور پارٹی کو وزیراعظم کو سلیکٹڈ کہنے سے چڑ ہوتی ہے تو وہ حکومتی نا اہلیوں پر تنقید کرنے اور دیگر سخت الفاظ کا استعمال کرنے کی بجائے یہی لفظ بولتے رہیں گے تاکہ ان کی انا کو تسکین ملے۔ عام لوگوں کو اسی لئے حیرت ہوئی کہ ان کی نگاہ میں یہ کہنا ایسا معیوب بھی نہیں کہ بالآخر عوام کے انتخاب کو سیلکیشن ہی کہا جائے گا اور اگر معاملہ عوام کی سلیکشن کا نہ بھی ہو تو ماضی میں اقتدار پر براجمان شخصیات کون سا سلیکٹید نہیں تھیں؟ اسی لئے عوام کی اکثریت یہ بات سمجھنے سے قاصر رہی کہ آخر سلیکٹڈ کہنے میں ایسی کیا برائی تھی جو ڈپٹی اسپیکر نے اس کے استعمال پر پابندی لگا دی؟ اور داد دیجئے اپوزیشن کو جو اس دام میں پھنس گئی اور جہاں سخت تنقید کرنی تھی وہاں محض سلیکٹڈ لفظ پہ جا اڑی۔

بجٹ سیشن کے دوران اس نئے بیانیہ کا عملی مظاہرہ بھی دیکھنے کو ملا۔ اسمبلی اجلاس میں حماد اظہر کی اپوزیشن پر تند و تیز طنز و تنقید نے ان کی شخصیت میں چھپا سیاست دان ایک دم باہر لا کھڑا کیا۔ ایسی لفظی گولہ باری کی کسی کو امید نہ تھی اور صورتحال اس وقت مزید دلچسپ ہوگئی جب شیخ روحیل اصغر نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر حماد کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا تو جواب میں حماد اظہر نے کہا کہ جب میرے والد (میاں اظہر) ق لیگ کے صدر تھے تو سب سے پہلے یہ ٹکٹ لینے آئے تھے۔ یہ میرے گھر کے باہر بیٹھے رہتے تھے۔ ( انہوں نے اشارہ شیخ روحیل اصغر کی طرف کیا ) اس بات پر اسپیکر سمیت بہت سوں کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور پی ٹی آئی ارکان نے اسمبلی ہال کے خوب ڈیسک بجائے اور داد دی۔

شیخ روحیل اصغر سیخ پا ہوکر حماد اظہر کو نازیبا گالیاں دیتے رہے جن کا ذکر کرنا مناسب نہیں۔ البتہ اس سے عمران خان کے ترکی بہ ترکی جواب دینے کی پالیسی اور مخالفین کے خلاف بیانیہ کے کامیاب ہونے کے آثار نمایاں ہوگئے۔

اسی طرح منزہ حسن نے کل اجلاس سے ارکان اسمبلی کی عدم موجودگی پر اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے پروڈکشن آرڈرز لئے تھے وہ کہاں ہیں؟ ان کا سوال اس انداز سے تھا کہ ہال میں موجود پی ٹی آئی ارکان خوشی سے اچھلنے لگے اور ڈیسک بجا بجا کر خوب داد دی۔ منزہ حسن نے نفیسہ شاہ کو پھر مخاطب کیا اور کہا کہ پروڈکشن آرڈرز اجلاس میں شرکت کے لئے جاری کروائے گئے تو بلائیں ان تمام ارکان پارلیمنٹ کو اور مسلم لیگ ن کے سعد رفیق کو بھی بلائیں، آکر کر اسمبلی ہال میں بیٹھیں۔

شاہ محمود قریشی نے (صدر نشیں ) منزہ حسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی ایوان میں عدم دلچسپی اور کم تعداد سے ان کی اپنے علاقوں اور وہاں کے عوام سے ہمدردی کا پول کھل گیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جن ارکان کے پروڈکشن آرڈر ایوان کی کارروائی سننے کے لئے جاری کیے گئے اور آپ نے انہیں بلوایا، جو آگئے سو آگئے جو نہ آئے اور رولنگ کی خلاف ورزی کی۔ کیا وہ اب مزید پروڈکشن آرڈر پر رہنے کے حقدار ہیں؟

‏شیریں مزاری نے بھی چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول زرداری کے خلاف قرارداد مذمت پیش کی کہ بلاول زرداری نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر جانبداری کے الزامات لگائے ہیں جو اس عہدے کے تقدس کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔

اس طرح کئی ارکان اپنے انداز میں مخالفین کے لئے تیکھی چھری بن گئے۔

وزیر اعظم عمران خان نے بجٹ منظوری کے بعد ارکان کو مبارک دی اور ساتھ ہی اپنی پارٹی کے چند ارکان کا نام لے کر تعریف کی۔ حماد اظہر کے اس نئے انداز کو ناصرف سراہا بلکہ یہ بھی کہا کہ اب آپ فیڈرل منسٹر شپ کے عہدے کے لئے کوالیفائی کرگئے۔ تو معلوم ہوا کہ سال بھر مشرق مغرب شمال جنوب کو منہ کیے چلنے والے پی ٹی آئی ارکان بالآخر مخالفین کے لئے ایک بیانیہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ میرے نزدیک لفظ ”سلیکٹڈ“ کا سلیکٹ کرنا، اسی نئے بیانیے کی پہلی چال تھی جو کامیاب رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).