فلم ریویو: فلم کتاکشا


پچھلی ایک دہائی سے پاکستانی فلم انڈسٹری کی از سرِ نو بحالی کے بعد، گو ٹیکنا لوجی میں بہت بہتری دیکھنے میں آئی لیکن کہانی کے اعتبار سے بہت کمی محسوس کی گئی۔ کچھ فارمولا رومانٹک کامیڈی کی کامیابی سے ایک عجیب بھِیڑ چال شروع ہو گئی اور کامیڈی کے نام پر پھکڑ بازی کا ایک رواج سا چل پڑا ہے۔ رومانٹک کامیڈی سے ہٹ کر، گن کے کوئی تین چار فلمیں ہی ہوں گی، جو بنیں اور کامیاب بھی ہوئیں۔ ان حالات میں مصنف و ہدایتکار ابو علیحہ نے ایک ہارر فلم بنا کر بہت بڑا رِسک لیا ہے لیکن عوام نے اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔ پاکستان میں اس سے پہلے جب بھی ہارر فلم بنی، وہ نا کام رہی ہے۔ ’’پری‘‘، ’’عکسبند‘‘، ”سایہ‘‘ اور ’’سر کٹا انسان‘‘، اس کی کچھ مثالیں ہیں۔ ان میں سے صرف ’’سر کٹا انسان‘‘ اپنی لاگت پوری کرنے میں کامیاب رہی، جبکہ باقی فلاپ رہیں۔ ’’کتاکشا‘‘ مطلب ’’پر نم آنکھ‘‘ پاکستان کی پہلی ہارر فلم ہے جس نے ایک کروڑ سے اوپر کا بزنس کیا ہے اور تا حال دو کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
ان تجربات کے پیش نظر اس فلم کا ریلیز ہونا اور کامیاب ہونا، جہاں ہدایتکار کی اپنے کام پر مہارت کا ثبوت ہے، وہیں ملک میں ایک نئے فلم بین ٹرینڈ کا بھی آغاز ہے۔ اس فلم کی کہانی ایک ٹی وی چینل کے چار رکنی کریو کے گرد گھومتی ہے جو ایک مندر کی شوٹنگ کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ ایک گاڑی میں سوار اس کریو کو راستے ہی میں کچھ محیر العقول واقعات کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ مندر پہنچتے ہوے انہیں دیر ہو جاتی ہے، اس لئے رات وہیں قیام کا فیصلہ ہوتا ہے۔ رات قیام کے دوران کچھ خوفناک واقعات کی بنا پر یہ کریو یکے بعد دیگرے موت کے منہ میں کیسے اور کیوں جاتا ہے، اسے دیکھنے کے لئے آپ کو سینما ہال جانا پڑے گا۔
’’کتاکشا‘‘ ایک لو بجٹ فلم ہے، لیکن کہیں سے بھی ہیوی بجٹ فلموں سے کم نہیں۔ فلم کا سب سے قابل ذکر امر اس کا سکرپٹ ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں نہایت شاندار ڈائیلاگ بولے گئے ہیں جو ناظر کو اپنی گرفت میں لئے رکھتے ہیں۔ عموماً ہارر فلموں کو کامیاب بنانے کے لئے برہنگی کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن اس فلم میں اس سستے پن سے گریز کیا گیا ہے۔ فلم کو کامیاب بنانے میں پچاس فیصد حصہ بیک گراونڈ میوزک کا ہے۔ معروف میوزیشن جاوید اللہ دتہ کے صاحبزادوں علی اور بلال اللہ دتہ نے اتنے زبردست صوتی اثرات دیے ہیں جو کہ ناظرین کی رگوں میں سرد لہر دوڑا دینے کے لئے کافی ثابت ہوئے ہیں۔ اپنی پہلی فلم کے باوجود کٹاس راج مندر اور کلر کہار جھیل کے انتہائی مشکل شاٹ، ہدایتکار نے کمال مہارت سے فلمبند کیے ہیں۔ ہارر فلم کے لئے کیمرا ورک اور سینماٹو گرافی بہت اعلی درجے کی چاہیے ہوتی ہے، جو بہت معیاری طریقے سے عکسبند ہوی ہے۔ فلم کی جان اس کا آخری ڈائیلاگ ہے جس میں فلم کی کہانی کا نچوڑ ہونے کے علاوہ ایک تحریکی پیغام بھی ہے۔ اس فلم کو ہارر سے زیادہ ایک تھرلر کہا جا سکتا ہے، جس میں سسپنس اپنے عروج پر ہے۔ منجھے ہوئے اداکار سلیم معراج نے اپنے کردار کے ساتھ بھرپور انصاف کیا ہے مگر جس شاندار طریقے سے نو آموز اداکارہ نمرہ شاہد نے اپنے کردار کو نبھایا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ ایک شوخ شنگ رپورٹر سے لے کر خوف کے انتہا درجے کو پہنچی حالت کو انہوں نے کمال مہارت سے نبھایا ہے۔
فلم پہلے حصے میں آپس کے چٹکلوں، لوئر مڈل کلاس معاملات سے آگے بڑھتی ہوئی بڑے عمدہ طریقے سے سٹوری کو کھولتی ہے۔ ہارر سین کے دوران عکسبندی اور صوتی اثرات تو بالکل فٹ بیٹھے ہیں لیکن کہیں کہیں منظر کی طوالت سے سٹوری ڈریگ ہوتی محسوس ہوتی ہے۔
اگر اس فلم کو ہارر کی بجائے سسپنس والے یانرا میں رکھا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ فلم کی سٹوری خوف کی بجائے سسپنس کی طرف زیادہ مائل ہے۔ ناظرین بھی فلم کی پیچیدہ گتھی کو آخری ڈائیلاگ کے ذریعے ہی سمجھتے ہیں۔ اس فلم کو دیکھتے ہوئے کہیں کہیں بالی وُڈ کی ماضی کی فلم ’’گپت” کا خیال آتا ہے، جس میں کاجول نے مرکزی کردار ادا کیا۔ اس کہانی میں بھی اسی طرح آخری منظر میں سسپنس کا اختتام ہوتا ہے۔ اس وقت تک ناظرین اپنی نشستوں کے کونے پر ٹکے ’’وٹ نیکسٹ‘‘ والی کیفیت میں ہوتے ہیں۔
اس فلم کا سب سے قابل ذکر پہلو اس کا ’’نیا‘‘ ہونا ہے۔ ما سوائے کرن تعبیر، سلیم معراج اور نبیل گبول  کے، فلم کی ساری کاسٹ نئی ہے۔ کیمرا مین، میوزک ڈائریکٹر، مصنف، ہدایتکار سب کے سب کی یہ پہلی فلم ہے۔ محدود بجٹ میں رہتے ہوئے ان نو آموز فنکاروں نے جس طرح اپنے فن کا مظاہرہ، اس لیول پر کیا ہے جس پر تجربے کار، مالدار فلمساز کرتے ہیں، وہ واقعی ایک قابل تحسین امر ہے۔
آخری تجزیے میں یہ روایت سے ہٹ کر ایک شاندار تجربہ ہے، جو پاکستان میں فلم بینی کی ایک نئی راہ متعین کرے گا۔
مصنف، فلمساز اور ہدایتکار: ابو علیحہ
کاسٹ: سلیم معراج، کرن تعبیر، نمرہ شاہد، قاسم خان اور نبیل گبول
آئی ایم بی ڈی ریٹنگ۔ ۷۰۹

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).