دھواں دار ملک صاحب کا دشمن


پہلوان اپنا گٹہ نکلوا بیٹھا تھا۔ پتہ لگا تو اس کا احوال لینے جانا ہی تھا۔ لاہور میں کوئی چن چڑھا کر پہلوان جمرود میں مفروری منا رہا تھا۔ پہلوان سے ملا تو اس نے حتمی اعلان کیا ۔ تمھارے شہر کے ڈاکٹر کسی کام کے نہیں۔ میرا گٹہ کوئی پہلوان ہی ٹھیک کر سکتا۔ یہ سنا تو پہلوان کو مشورہ دیا کہ کسی دیسی ماہر کو فون کر کے لاہور سے بلوا لو۔

پہلوان فوری طور پر اگ کا گولہ ہو گیا۔ اپنے ریٹائر گٹے کے ساتھ ہی کھڑا ہو گیا۔ بہت پیار سے پوچھا کہ اوئے توں پاغل تے نہیں۔ میں اتنا کھوتا ہوں کہ خود لاہور اطلاع دے دوں۔ دشمنوں کو خوش ہونے کا موقع دوں۔ وہ مجھ پر ہنسیں کہ پہلوان جمرود میں ڈھیر ہوا پڑا ہے۔ پہلوان کے غصے اس کے جذبے کی کچھ سمجھ نہ آئی۔

سمجھ تب آئی جب سہیل وڑائیچ نے اپنے پروگرام میں نواب بگٹی سے سوال کیا۔ نواب صاحب آپ اپنے ساتھ اتنے گارڈ کیوں رکھتے ہیں۔ نواب کا جواب جہان معنی لئے ہوئے تھا لیکن بہت مختصر۔ اس لئے گارڈ رکھتا ہوں کہ دشمنوں کو خوشی نہ ملے۔ جب دشمنی کرنی ہو تو پھر دشمنی کرنا بھی سیکھنا چاہئے۔ دشمنی کی اپنی ایک نفسیات ہوتی ہے۔

اگر آپ اپنے دشمن کو خود سے زیادہ نہیں جانتے۔ تو آپ کبھی نہیں جیتیں گے۔ منہ کی کھائیں گے بار بار ہاریں گے۔ بس اپنا دل ہی جلائیں گے۔ اس میں سے دھواں ہی نکلے گا پھر۔

خیبر ایجنسی تھی ہم مین روڈ سے دور تھے۔ شام تھی پہاڑ تھے وادی تھی جہاں دور دور گھر تھے۔ ان گھروں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ دل دیوانہ ہو گیا ہم گاڑی روک کر کھڑے ہو گئے۔ کوئی اور ہی دنیا تھی اور ہی نظارہ تھا۔ میزبان ملک کو موقع مناسب لگا وہ تربیت کرنے پر تل گئے۔ اوئے تم دھواں دیکھ رہا ہے یا کھانا بنانے والی کو سوچ رہا ہے۔ انہیں کہا ملک صاحب معافی ایسا کچھ نہیں سوچ رہا۔

ملک صاحب نے پوچھا تم نے وہ اردو میں سنا ہے۔ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا۔ عرض کیا جی سنا ہے۔ ملک صاحب نے اعلان کیا کہ یہ پشتو ہے۔ ملک صاحب سے عرض کی ملک صاحب یہ پشتو میں کبھی نہیں سنا یہ اردو ہی ہے۔ انہوں نے حکم دیا کہ بکواس بند کروں۔

ملک صاحب نے کہا تمھیں پتہ ہے پرانے وقتوں میں دشمنوں کے گھروں کا دھواں ہمارا دوست ہوتا تھا۔ ملک صاحب سے کہا کہ نہیں پتہ کہ ماضی میں آپ کردار کالے دھویں جیسا تھا۔ ملک صاحب اس کو تعریف سمجھ کر خوش ہوئے۔ انہوں نے پوچھا تمھیں برج کا تو پتہ ہے نہ۔ عرضی کی جی پتہ ہے وہ مٹی کا چکور سا مینار جو آپ لوگ اپنے گاؤں میں بناتے ہیں۔

ہاں وہی اس برج پر ہمارا کوئی بزرگ شام سے پہلے ہی چڑھ کر بیٹھ جاتا تھا۔  یہ بزرگ برج پر اپنے دشمن کے گھر کی طرف بری نیت باندھ دیکھتا رہتا تھا۔ اس کے بعد وہاں بیٹھا رننگ کمنٹری کرتا۔ آج انہوں نے آگ جلدی جلا لی ہے۔ دیر زیادہ ہو گئی ہے آگ کو جلتے ہوئے۔ اتنی دیر میں تو ان کا کھانا بن جاتا ہے۔ بھوکے یہ کھاتے بھی کتنا ہے۔ ہم نے ان کو فقیر کر دیا ہے۔ اب یہ جلدی پکا لیتے ہیں تھوڑا سا تو کھانا ہوتا ہے۔ انشااللہ انہیں ہم بھوک سے بھی ماریں گے۔

اگر دھواں زیادہ دیر تک اٹھتا رہتا تو برج پر بیٹھا ملک اعلان کرتا۔ سب لوگ اکٹھے ہو جاؤ ان کمبختوں نے آج لوگ بلا لیے ہیں۔ ہم پر آج رات حملہ ہو گا یہ اس وقت انہیں کھانا کھلا رہے ہیں۔ اس کے بعد صورتحال کے مطابق کبھی خود پہنچ کر دشمن کو اس کے مہمان سمیت تہہ تیغ کیا جاتا۔ یا پھر انہیں موقع دیا جاتا کہ وہ حملہ کرے اور اس کو حیران پریشان کیا جائے اپنی تیاری سے۔

ملک صاحب نے کہا یار اب نہ وہ دشمنیاں رہیں نہ وہ ماہر رہے۔ اب تو سیاست ہے اس میں بھی حریف کو اتنی گہرائی سے جاننے والے کم ہیں۔

ملک صاحب کے دکھ کو نظر انداز کر کے پوچھا ۔ کیا سب دشمن دار دھویں کے اتنے ہی ماہر ہوتے تھے۔ ملک صاحب بولے نہیں دھواں دار ملک ایک آدھ ہی ہوتا تھا۔ اگر سب ہی دھواں دار ہوتے تو نہ لڑائی ختم ہوتی نہ کوئی ہارتا۔ ابھی دھواں دار لفظ کا یہ حشر ہوتا دیکھ کر ہی صدمے میں تھا کہ ملک صاحب بولے۔

زندگی میں دشمن ضروری ہے تم کسی سے لڑنے کے قابل تو ہے نہیں ۔ اس لئے کوئی گول سیٹ کرو اس کو حاصل کرو ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سادہ ملک نہ بنو دھواں دھار ملک بنو۔ اپنے کام کو ایسے سیکھو جیسے دھواں دار ملک اپنا کام سیکھتا تھا ۔ ہر بار اپنا ٹارگٹ حاصل کرو۔ ہر بار اپنے دشمن کو شکست دو یعنی گول حاصل کرو۔ یہ کہہ کر فتح کی خوشی میں ملک صاحب نے اپنے مکے کو جذباتی ہو کر ایک زور دار چک لگایا۔

ملک صاحب نے واقعی بہت کامیابی سے زندگی کا ایک سبق دے دیا تھا ۔ پر وہ ملک صاحب ہی کیا جو ہیپی اینڈنگ ہونے دیں۔ انہوں نے اپنے بات جاری رکھی اور فرمایا۔

انسان کا کام ہے کہ کسی کو فائدہ پہنچائے نہیں پہنچا سکتا کوئی بات نہیں۔ اسے اس قابل ہونا چاہئے کہ کسی کو نقصان پہنچائے۔ اگر نقصان بھی نہیں پہنچا سکتا تو بس پھر وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے۔ اس کے لئے بہتر ہے کہ فوت ہو جائے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments