رانا ثنا اللہ پر بھینس چوری کا مقدمہ


رانا ثنا اللہ کو کل موٹروے پر سفر کرتے وقت اینٹی نارکوٹکس فورس نے گرفتار کر لیا۔ ظاہر ہے کہ پوری تیاری سے اور بہترین مخبری سے یہ آپریشن کیا گیا، اسی لئے اینٹی نارکوٹکس فورس کو پتہ تھا کہ رانا ثنا اللہ اس وقت کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ پندرہ کلو ہیروئن ان کی گاڑی سے برآمد کر لی گئی۔ لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔

روزنامہ 92 کی خبر سے یہ پتہ چلا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا گروہ تھا جس کے لئے رانا ثنا اللہ کام کر رہے تھے۔ اب ظاہر ہے کہ جو منشیات فروش گروپ معمولی اچکوں کی بجائے ایک سابق صوبائی وزیر جو ایک بڑی جماعت کا صوبائی صدر بھی ہے، کو منشیات کی نقل و حمل کے لئے کیرئیر کے طور پر استعمال کرتا ہو وہ واقعی بہت بڑا اور با اثر ہو گا۔ خبر سے ہمارے اس گمان کی تصدیق بھی ہو گئی۔ یہ کوئی چھوٹا موٹا معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک عالمی مافیا کا معاملہ ہے۔ ذرائع نے صاف صاف بتا دیا ہے کہ نہ صرف اس مافیا کا پیسہ کالعدم تنظیموں کو گیا بلکہ اس گرفتاری کا تعلق ایف اے ٹی ایف سے بھی ہے اور سات مزید ممبران صوبائی اسمبلی کے خلاف بھی تحقیقات فائنل سٹیج پر ہیں۔ ان میں سے تین بلوچستان اور دو پختونخوا سے ہیں۔

اپنے اندازے اس طرح غلط نکلنے پر بارہا احساس ہوتا ہے کہ ہم بھی کتنے سادہ ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ فیٹف والوں کی نظر حافظ سعید اور مسعود اظہر وغیرہ پر ہے۔ اب جا کر احساس ہوا ہے کہ فیٹف کا اصل ہدف تو رانا ثنا اللہ تھے۔

رانا ثنا اللہ کو ہم بدمعاش تو سمجھتے تھے۔ جب انتخابات کے نتائج تین دن تک مسلسل آ رہے تھے تو چند لائلپوری دوستوں کا ان پر ردعمل دلچسپی سے دیکھا۔ ان دوستوں کی کوئی جنونی وابستگی تحریک انصاف سے نہیں تھی بلکہ ایک تو جماعت اسلامی کے ووٹر تھے۔ جیسے ہی ابتدائی طور پر یہ خبریں آئیں کہ رانا ثنا اللہ کو انتخابات میں شکست ہوئی ہے تو ایک اجتماعی انداز میں شکرانے کی صدا بلند ہوئی کہ انتخابات کا باقی جو بھی نتیجہ نکلے شکر ہے کہ یہ بندہ ہار گیا۔ اس سے ہمیں یہ اندازہ تو ہو گیا تھا کہ اس بندے کی لائلپور میں ریپوٹیشن اچھی نہیں ہے اور کوئی بڑا بدمعاش ہے مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ عالمی لیول کا بدمعاش ہے۔

ماڈل ٹاؤن کیس میں تو تحریک انصاف کی نہایت قابل اور شفاف حکومت بھی انصاف فراہم کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ اور شہباز شریف پر فرد جرم عائد نہیں کر پائی۔ لیکن قدرت کا انصاف دیکھیں کہ ایک کو آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں پکڑ لیا ہے اور امید ہے کہ جلد ہی اس کیس کا بھی روایتی انصاف کر دیا جائے گا، اور دوسرا معمولی بدمعاشوں کی طرح منشیات سپلائی کرتا ہوا پکڑا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کیس کا بھی روایتی انصاف ہو گا۔

اپنے لائلپوری دوستوں کے رد عمل کو دیکھتے ہوئے ہماری رائے میں رانا ثنا اللہ پر صرف منشیات سپلائی کرنے اور عالمی دہشت گردوں کو فنڈنگ کرنے کی فرد جرم عائد نہیں ہونی چاہیے بلکہ لائلپور میں ہونے والے تمام جرائم کا ذمہ دار بجا طور پر ان ہی کو قرار دیا جانا چاہیے۔ لائلپور شہر میں جیب کترنے، گاڑی کا مونوگرام اور شیشے چوری کرنے، اور اشارہ نظرانداز کرنے کی وارداتیں عام ہیں۔ نواحی دیہات میں بھینس بکری کی چوری کا مسئلہ بھی زیادہ ہے۔ کیا آپ نے سوچا ہے کہ ان منظم جرائم کے پیچھے کون ہے؟

ہماری رائے میں رانا ثنا اللہ سے ان معاملات کے بارے میں تفتیش کرتے ہوئے ان پر بھینس چوری کا مقدمہ جلد از جلد قائم کیا جائے۔ ہمیں تعجب نہیں ہو گا اگر تفتیش کے بعد یہ پتہ چلے کہ پنجاب سے بھینسیں چوری کر کر کے افغانستان میں داعش اور طالبان کو سپلائی کی جا رہی ہیں جن کا دودھ پی پی کر وہ دہشت گردی کے لئے مطلوبہ صلاحیت حاصل کرتے ہوں۔ اس سنگین معاملے کی تفتیش ہمیں خود کرنی چاہیے قبل اس کے کہ فیٹف سے ہمیں اس کی اطلاع ملے۔

کیا رانا ثنا اللہ کی جیب سے بٹوا برآمد نہیں ہوا؟ کیا ان کی گاڑی پر لگے ہوئے شیشے اور مونوگرام اس بات کا ثبوت نہیں ہیں کہ وہ ان اشیا کی چوری میں ملوث ہیں؟ ان کی گاڑی سے دودھ کا ڈبہ نہیں ملا؟ پھر ان پر جیب کترنے، مونوگرام نکالنے اور بھینس کی چوری کا مقدمہ درج کرنے میں تساہل کیوں برتا جا رہا ہے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar