ملکی معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ عمران خان ہیں


ایک طرف وفاقی وزیر فواد چوہدری وزیر اعظم کے ایک اشارے پر سندھ حکومت گرانے کا دعویٰ کررہے ہیں تو دوسری طرف عمران خان خود کسی نہ کسی طرح نواز شریف اور آصف زرادری کو ’این آر او‘ لینے پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی حکومت کا خزانہ بھر سکے۔ آج رات ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں ملک کے وزیر اعظم نے ایک بار پھر انسانی طور سے ممکن پروپیگنڈا کا ہر ہتھکنڈا استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ لگتا ہے کہ انہیں اس بات کا یقین دلوا دیا گیا ہے کہ جھوٹ کو تسلسل اور بار بار بولنے سے لوگ اس کا اعتبار کرنے لگتے ہیں۔

حکومت سنبھالتے ہی عمران خان کو اس بات کا گمان تھا کہ ان کی ایک اپیل پر بیرون ملک مقیم لاکھوں پاکستانی ڈالر بھیجنے کے لئے بنکوں کے باہر قطاریں بنا نا شروع کردیں گے۔ اس لئے انہوں نے احتیاطاً یہ مشورہ دیا کہ یہ تارک وطن پاکستانی صرف ایک ہزار ڈالر فی کس بھی روانہ کریں تو ملک کے سارے مالی مسائل حل ہوجائیں گے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے چندہ وصول کرنے کے لئے عمران خان نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے مشہور زمانہ ڈیم فنڈ کو استعمال کیا اور اسے وزیر اعظم فنڈ میں تبدیل کردیا۔ اپنے چہیتوں کو دنیا بھر کے ملکوں کے دورے کر کے پاکستانی تارکین وطن سے ملنے اور ملک کے خزانے میں زرمبادلہ کے انبار اکٹھے کرنے کے کام پر مامور کیا۔ اگر پاکستان میں سرکاری وسائل آڈٹ کرنے کا واقعی کوئی نظام موجود ہو تو حساب نکلوایا جا سکتا ہے کہ ان دوروں پر حکومت کے خزانے سے کیا ادا کیا گیا اور ان دوروں کے نتیجے میں کتنا سرمایہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ڈیم فنڈ میں جمع کروایا۔

اب نہ تو حکومت اور نہ ہی عمران خان ڈیم فنڈ کا ذکر کرتے ہیں۔ کیوں کہ عمران خان کی یہ خوش فہمی ہوا ہوچکی ہے کہ ان کے ایک اشارے پر روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں دوسرے ملکوں میں گئے ہوئے لوگ اپنی جائیدادیں بیچ کر ڈالر اور پاؤنڈ ملک کے نئے ایماندار وزیر اعظم کے ہاتھ پر رکھ دیں گے تاکہ وہ شوکت خانم ہسپتال کی طرح پاکستان کو بھی بنا سنوار سکیں۔ بدقسمتی سے عمران خان اب تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک فلاحی ہسپتال بنانے اور ملک چلانے اور اس کی ضرورتیں پوری کر نے میں فرق ہوتا ہے۔ ملکوں کو چندوں سے نہیں چلایا جا سکتا۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی اگر اس قابل ہوتے کہ وہ اپنی جمع پونجی کے ذریعے پاکستان کو فلاحی ریاست میں تبدیل کر دیں تو لاکھوں کی تعداد میں انہیں دوسرے ملکوں میں جاکر آباد ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ سادہ سی بات ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی دوسرے ملکوں کے تارکین وطن کی طرح اپنے وطن کے لئے نیک خواہشات رکھتے ہیں اور اس کی تعمیر و ترقی میں کردار بھی ادا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ اس قابل نہیں ہیں کہ ایک سو ارب ڈالر کے لگ بھگ زیر بار ملک کی مالی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔ نہ وہ اتنا سرمایہ اکٹھا کرنے کی حیثیت رکھتے ہیں اور نہ حکومت پاکستان نے کبھی اعتماد کی وہ فضا پیدا کی ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی واقعی اپنے ملک پر تکیہ کرتے ہوئے، اپنے گھر اور جائیدادیں فروخت کرکے واپس پاکستان آجائیں۔ پاکستانی حکومت تو ان بیس بائیس ارب ڈالر کا مناسب انتظام کرنے اور ان کے بدلے کسی محنت کے بغیر پاکستان کو یہ زرمبادلہ فراہم کرنے والے پاکستانیوں کو بنیادی سہولتیں اور احترام فراہم کرنے کے قابل بھی نہیں ہے۔ اس صورت حال کا مشاہدہ روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کے کسی بھی ائیرپورٹ پر کیا جا سکتا ہے یا پاکستانی سفارت خانوں میں پیش آنے والے طرز عمل سے اسے پرکھا جا سکتا ہے۔

البتہ اس سے بھی پہلے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے دو گروہ ہیں۔ ان میں سے اکثریت مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک میں مقیم ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ کم اجرت پر کام کرتے ہیں اور اپنی ماہانہ تنخواہ اپنے اہل خاندان کو روانہ کرکے ان کے گزر بسر کا بندوبست کرتے ہیں۔ پاکستانی تارکین وطن کا دوسرا گروہ امریکہ، آسٹریلیا یا یورپی ملکوں میں آباد ہے۔ ان میں سے بھی کافی بڑی تعداد ابھی تک اپنے قیام کو قانونی حیثیت دلوانے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ کبھی وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور کبھی انہیں ملک سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ ان ملکوں میں مستقل طور سے آباد پاکستانی نژاد باشندے اگرچہ خوش حال زندگی گزارتے ہیں لیکن ان کی اکثریت بمشکل نئے معاشروں میں باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کے قابل ہے۔ ان میں سے بہت سوں کی دوسری یا تیسری نسل اب نئے وطنوں میں جوان ہو رہی ہے۔ ان کی ضرورتیں اب انہی معاشروں کے ساتھ وابستہ ہیں۔

ایسا دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ بیرون ملک مقیم بعض پاکستانیوں نے جائیداد بیچ کر اور سارا سرمایہ اکٹھا کر کے پاکستان واپس جاکر آباد ہونے اور اپنی نئی نسل کو وہاں پروان چڑھانے کا خوب دیکھا۔ لیکن ایسا ایڈونچر کرنے والے اکثر لوگوں کو سارا سرمایہ ضائع کرنے اور کئی سال خراب ہونے کے بعد بالآخر واپس اسی ملک آنا پڑا جہاں کی ’بری ثقافت‘ سے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لئے رخت سفر باندھنے کا ارادہ کیا تھا۔ ان پاکستانی اقلیتوں سے اگر پاکستان کی تعمیر کی توقع باندھی جائے گی تو وہ نقش بر آب ہی ثابت ہوگی کیوں کہ ان کے پاس 22 کروڑ آبادی کے زیر بار ملک کے معاملات سنبھالنے کی صلاحیت و حیثیت نہیں ہے۔ اس کے باوجود عمران خان کو اپنی مقبولیت اور دیانتداری کی شہرت پر اتنا گمان تھا کہ وہ ایک ہزار ڈالر فی کس کے حساب بیرون ملک پاکستانیوں سے کئی ارب ڈالر ملنے کی امید لگا بیٹھے۔ اس امید کے ٹوٹنے پر ہی انہیں کاسہ گدائی لے کر عرب ملکوں کے ہاں جانا پڑا۔

اس غلط فہمی میں ناکامی کے باوجود نعروں اور دعوؤں کی بنیاد پر حکومت چلانے کی کوشش کرنے والے عمران خان نے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے کے ٹیکس لگاتے ہوئے یہ اعلان کرنا شروع کردیا کہ ملک کے باہمت عوام میں دس ہزار ارب روپے جمع کرنے کی طاقت ہے۔ اگر ہم یہ ٹیکس دینا شروع کردیں تو ہمارا ملک اپنے سارے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اب بھی وہ یہی امید باندھے ہوئے ہیں۔ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی ناکامی کے باوجود وہ ہر چند روز بعد لوگوں دھمکانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ اپنی بے نامی جائیدادوں اور کالے دھن کو قانونی کروا لو ورنہ بعد میں ’کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا‘۔ اب وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کی شدید مخالفت کی وجہ سے ایمنسٹی اسکیم کی مدت میں محض تین روز کی توسیع کی ہے۔ ورنہ وزیر اعظم کے بس میں ہوتا تو وہ اس اسکیم کو ہمیشہ کے لئے جاری رکھتے تاکہ ہر دو تین روز بعد قوم سے خطاب کرنے اور ’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘ کا ورد پڑھنے کا موقع ملتا رہتا۔

عمران خان کا فرض ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کی مدت پوری ہونے کے بعد وہ عوام کو آگاہ کریں کہ اس نادر روزگار اسکیم اور ہزار جتن کے بعد اس منصوبہ سے کتنے وسائل قومی خزانہ میں جمع ہوئے ہیں۔ اگر یہ حساب کیا گیا تو یہ رقم بھی وزیر اعظم ہاؤس کی گاڑیاں اور بھینسیں فروخت کرنے کے اسکینڈل سے مختلف ثابت نہیں ہوگی۔ اس دوران حکومت کے پاس بجٹ کے حوالے سے معاشی معاملات پر اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت کرنے اور ملک کو ٹھوس معاشی منصوبہ دینے کا موقع ضرور تھا۔ تاہم وزیر اعظم نے بجٹ منظور کروانے کے لئے اپنی ہٹ دھرمی اور ایک پیج کی طاقت کو کافی سمجھا۔ بجٹ تو منظور ہوگیا لیکن ملک کے معاشی معاملات بدستور دگرگوں ہیں۔ اب آئی ایم ایف سے قرض ملنے کی نوید دی جا رہی ہے لیکن یہ بتانے کی زحمت نہیں کی جاتی کہ سابقہ حکمرانوں پر قرض لے کر اپنے خزانے بھرنے کا الزام لگانے والی حکومت خود اپنے دس ماہ کے دورانیہ میں کتنا بیرونی قرض لے چکی ہے۔ آخرکب تک پاکستان کی مالی مشکلات کا سارا بوجھ سابقہ حکومتوں کے سر ڈال کر عمران خان خود ایک چھوٹے بچے کی طرح تالی پیٹتے رہیں گے؟

آج کے ٹی وی انٹریو میں عمران خان یہ دور کی کوڑی لائے ہیں کہ نواز شریف نے دو ملکوں سے مداخلت کرنے اور معافی دلوانے کے لئے رابطہ کیا تھا لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ لیکن دونوں ممالک کے حکمران عمران خان کے کان میں یہ ضرور کہہ گئے کہ انہوں نے شریف خاندان کی مدد سے انکار کر دیا ہے۔ ملک کا وزیر اعظم جب ایسی غیر ذمہ دارانہ باتیں کرے گا جن کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جا سکتا اور جسے بیان کرنے سے قومی وقار کو ٹھیس لگتی ہو اور وزیر اعظم کے منصب کو ضعف پہنچتا ہے تو اس کی منڈیوں پر اعتبار اور سرمایہ دار کا بھروسہ مسلسل متزلزل رہے گا۔ اس تناظر میں ملک کی معیشت کے لئے جیل میں بیٹھے نواز شریف یا آصف زرادری خطرہ نہیں ہیں بلکہ غیر ذمہ داری سے حکومت کرنے والے عمران خان ہیں۔

عمران خان نے پیش کش کی ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری پلی بارگین کر کے حکومت کو رقم ادا کریں اور ملک سے باہر چلے جائیں۔ شاید کسی نابغہ نے ان کے کان میں یہ بات ڈال دی ہے کہ ان دونوں خاندانوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ اسے وصول کرکے ملک کے سارے قرضے اتارے جا سکتے ہیں۔ سیاسی نعرے سے قطع نظر ایسا گمان صریحاً جہالت سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ان دونوں خاندانوں کے کل معلوم اثاثے دو یا تین ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ ساری دولت ’چھین لینے‘ کا کوئی طریقہ نہ حکومت کے مالی بے ضابطگیوں کا مداوا کرسکتا ہے اور نہ ہی ان لیڈروں کی سیاسی مقبولیت کو ختم کر سکتا ہے۔

اب فواد چوہدری سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے اور عثمان بزدار مسلم لیگ (ن) میں نقب لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کوششوں سے عمران خان کی صدق دلی اور دیانتدار سیاست کا بھانڈا بازار کے بیچ پھوٹ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali