خوبصورت بننے کا جنون


ہمارے معاشرے میں باڈی شیمنگ کے بعد اسی سے ملتا جلتا ایک اور ایشو عام ہے۔ مجھے اپنے حلقہ دوستاں سے سننے کو ملا کہ لاہور کی لڑکیوں کے چہرے تو خوبصورت ہوتے ہیں لیکن پاوں کالے ہوتے ہیں۔ ایک اور چیز جس کا براہ راست مجھے بھی نشانہ بننا پڑتا ہے کہ لاہور کی لڑکیاں بہت خوبصورت ہوتی ہیں لیکن جب اردو بولتی ہیں تو سارا حسن گم جاتا ہے۔ لہجہ پنجابی ہونے کی وجہ سے کچھ لوگوں کا یہ مسئلہ تو ہو سکتا ہے لیکن زیادہ تر نارمل انداز میں ہی بات کرتے ہیں۔ میرے حساب سے اس میں کوئی برائی نہیں کیونکہ اپنے اصل سے پیار اور محبت تو مٹی کا بھی آپ پہ حق ہوتا ہے۔ ایسے ہی کراچی کی لڑکیوں کے رنگ پہ تنقید کی جاتی ہے۔ آخر گورا رنگ ہی کیوں اور کیسے خوب صورتی کی علامت بن گئی۔

گورے رنگ کا حالیہ کریز تو ملٹی نیشنل کمپنیوں کا پیدا کردہ ہے جن کا اوریجن مغربی ممالک میں ہے۔ دوسرا اس کے پیچھے قدیم شمالی فاتحین کا تعصب بھی ہے۔ جیسے یورپیوں نے افریقی کو احساس دلایا کہ گورا ہی خوب صورت ہوتا ہے یا ہندوستان میں آریا اور ان کے بعد شمال سے آنے والے ترک، ایرانی و افغانیوں نے خود کو برتر ثابت کرنے کے لئے رنگ کا سہارا لیا۔ فاتح طاقت ور ہوتا ہے اس لئے کمزور نے تسلیم کرلیا۔ یہی ترکیب ہندوستان میں انگریزوں نے بھی استعمال کی۔

ہمارے معاشرے کے عمومی رویے کو سمجھتے ہوئے ہی ملٹی نیشنل اور لوکل کمپنیز نے رنگ گورا کرنے والی کریمیں بنانے کی بہتات کی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں تو ہمارے لوکل پارلرز بھی بہت بڑا حصہ ڈالتے ہیں۔ مجھ سے خواتین آ کے پوچھتی ہیں کہ رنگ گورا کرنے داغ دھبے ختم کرنے اور چہرے کے بال ختم کرنے کے لیے کریم دے دیں۔ میرا جواب ہوتا ہے کہ سکن سپیشلسٹ یا ڈرماٹالوجسٹ کو دکھائیں۔ پھر وہ مجھے جیسے دیکھتی ہیں یہ الگ کہانی ہے۔

مجھے بھی سب طریقے آتے ہیں کہ کیسے کریمز بنتی ہیں۔ لیکن کیا میرا شعور مجھے یہ اجازت دے گا کہ میں کسی کی جلد کے ساتھ کھلواڑ کر دوں۔

بیوٹی کریمز کے استعمال کے علاوہ آج کل ایک اور کام بھی زوروں پہ ہے۔ اپنے چہرے کے نقوش کو جو چاہے شکل دے دیں۔ اب تو عام بات ہے کہ ناک کی سرجری کروا لیں یا ہونٹوں کی۔ پیسہ پھینک تماشا دیکھ کا حساب چلتا ہے بھئی۔

نسوانی حسن میں کمی خواتین کا بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے تو اس کے لیے بھی آپ کو لوکل اور انٹرنیشنل برینڈ کی فرمنگ کریمز مل جائیں گی۔ زیادہ پیسے ہیں تو سلیکون ٹرانسپلانٹ کرا لیں۔ دراصل اس کے پیچھے بھی مرد کے معیار پہ پورا اترنے کی نفسیات ہوتی ہے۔

یہ بات ماننے میں مجھے کوئی عار نہیں ہے کہ خوبصورت نظر آنا ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں یہ عورت کا حق ہے۔ لیکن اس کے لیے اس حد تک چلے جانا کہ اپنی موجودہ جسمانی ساخت کے ساتھ کھیلا جائے۔ یا دنوں میں گورا ہونے کے لیے ایسی کریمز کا استعمال کیا جائے جو کہ سکن کو اس قدر پتلا کر دیتی ہیں کہ ذرا سا ناخن یا دھاگہ لگنے پہ اس سے خون رسنے لگے۔ اور کریمز کا استعمال چھوڑنے کے بعد سکن پہلے سے زیادہ خراب ہو جائے۔

کیوں آپ خود کو میں جیسی ہوں خوبصورت ہوں کی بنیاد پہ قبول نہیں کرتیں۔ آپ جس شکل و صورت یا جسمانی ساخت کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ اسے ویسے ہی قبول کریں اور نکھارنے کی کوشش کریں۔ صاف ستھرے کپڑے پہنیں۔ ہاتھ پاوں اور چہرے کی کلینزنگ کریں۔ ناخن صفائی سے کٹے اور شیپ میں ہوں۔ اچھے سلیقے سے بال بنے ہوں۔ میرا نہیں خیال کہ ان سب کے لیے بہت ہائی فائی قسم کے برینڈز کی ضرورت پڑتی ہے۔ آپ کے پاس وافر پیسہ ہے آپ اسے خود پہ خرچ کریں۔

جو پسند ہے پہنیں۔ اگر محدود وسائل ہیں تب بھی سلیقہ آپ کو بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔ آج کل انٹرنیٹ تک رسائی عام ہے۔ یو ٹیوب پہ آپ کو بہت سے ٹیوٹوریل مل جاتے ہیں جہاں سے آپ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ لڑکیوں پہ پریشر ہوتا ہے کہ وہ پرفیکٹ نظر آئیں۔ ورنہ ان کے رشتوں میں رکاوٹ ہو گی۔ رشتہ دیکھنے کے لیے آنے والوں کا اپنا بیٹا چاہے جیسا بھی ہو۔ لیکن لڑکی ان کو پریوں جیسی چاہیے۔ ارے بھئی ہر لڑکی اپنے والدین کی پری ہوتی ہے۔

آپ جب کسی کو رنگ یا شکل و صورت کی وجہ سے ٹھکراتے ہیں تو ان کے دل پہ جو گزرتی ہے یا ان کے ذہن پہ جو نفسیاتی اثر پڑتا ہے اس کا ازالہ آپ کر سکتے ہیں۔ کبھی نہیں۔ خوب صورتی کا وہ معیار جو مرد نے مقرر کر رکھا ہے کیا اس معیار کو قائم رکھنا عورت کے لئے مفید ہے۔ خوب صورتی کا معیار خود خوب صورتی کیوں نہ ہو۔

اب رنگ تو رنگ ہے۔ خوب صورتی کا معیار ہر جگہ مختلف ہوتا ہے۔ عورت پر ظلم یہ ہے کہ اسے مرد کے بنائے معیار پر چلنا ہے۔ گورا رنگ، نیلی آنکھیں لمبا قد اور پتلی کمر یہ معیار بھی کپڑے بیچنے والے بڑے بڑے برینڈز کے طے کردہ ہیں۔ کچھ سال پہلے زیرو سائز ہونا خوبصورتی کا پہلا معیار بن چکا تھا۔ میں نے خود دیکھا کہ ہر عورت یا لڑکی کھانا پینا چھوڑ سائز زیرو پہ آنے کے لیے جتی ہے۔ اس سے متعلقہ ایک واقعہ بتاتی ہوں۔

ہماری ایک دوست جم چلاتی تھیں۔ خوبصورت تھیں لیکن تھوڑی ہیلتھی تھیں۔ ان کے میاں نے ایک بار ٹی وی دیکھتے ہوئے کہہ دیا کہ یار کترینہ کی کمر کتنی پتلی ہے۔ بس وہ موصوفہ جنابہ اب ڈائٹنگ پہ شروع ہو گئیں۔ تین ماہ کی کوشش کے بعد مطلوبہ معیار تک پہنچنے والی تھیں تو ان کے ہسبینڈ نے کہا کہ تم کیا ایتھوپیا کی عورتوں کی طرح ہڈیوں کی مٹھ بنتی جا رہی ہو۔ ڈاکٹر کو چیک کرواؤ۔ وہ کہتی میرا دل کیا کہ پہلے اپنے میاں کا سر توڑوں پھر اپنا۔ تو جناب خوبصورتی کا معیار آپ کے لیے کوئی اور کیوں بنائے اور آپ کیوں اس پہ پورا اترنے کے لیے اپنی انرجی ضائع کرتی رہیں۔

اگر آپ ڈی شیپ ہیں تو کیا خود پہ زندگی حرام کر لیں گی۔ صحت مندانہ سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ ورزش کو معمول بنائیں۔ فیشن کے مطابق چلیں۔ اپنے اوپر اعتماد رکھیں کہ آپ دنیا میں سب سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ کسی مائی کے لال میں اتنی جرات نہ ہو گی کہ وہ آپ کو بدصورت کہہ کے آپ کا مذاق اڑائے۔ زندگی مختصر ہے اسے لوگوں کی باتیں سن کے ضائع یا ختم مت کریں۔ شان سے جئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).