عمران خان غلط ہیں یا عوام غلطی پر تھے؟


اصل میں عمران حکومت کی پالیسیاں نہیں، ہماری اجتماعی سوچ غلط تھی۔۔۔ ذرا سوچیئے!

اگر ہم یہ مان لیں کہ یہی وہ تبدیلی ہے جس کی ہمیں آرزو تھی ، جس کا خواب ہم نے آنکھوں میں سجایا اور جس کی خواہش میں ہم “ایک چانس تو ملنا چاہیئے” کی دہائیاں دیتے رہے۔ اگر یہ سچائی ہم مان لیں تو سانس لینا آسان ہو جائے گا مگر صرف اتنا ہی نہیں، سبق سیکھنا بھی آسان ہو جائے گا۔ ایسا نہیں کہ سب کچھ مقتدر قوتوں کے گلے ڈال کر ہم ہمیشہ پتلی گلی سے نکل جائیں گے۔

پونے دو کروڑ کے لگ بھگ ووٹ مقتدر قوتوں نے نہیں ڈالے۔ اتنا سٹاف اکٹھا کرنا اور ایک ہی رات میں پونے دو کروڑ ٹھپے لگانا یہ انسانی استعداد سے بہت آگے کا الزام ہے۔ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ لوگوں نے عمران خان کو ووٹ دیئے تھے اور جس تبدیلی کے لئے یہ ووٹ دیئے تھے ۔۔۔یہ بالکل وہی تبدیلی ہے۔ بہتر ہو گا کہ اس سے بھاگنے اور دہائیاں دینے کی بجائے اب ہم اس کا سامنا کریں۔

یہ کوئی ایسی پرانی بات تو نہیں کہ جسے ہم جلدی سے بھول سکیں۔ ابھی کل تک ہر لیکچر، سیمنیار، کانفرنس اور کتاب میں۔۔۔ ہر تحقیقی مقالے ۔۔۔ اخباری مضمون میں ۔۔ ہمیں تمام مکاتب فکر کے معیشت دان ہمیں یہ نسخہ بتاتے رہے کہ پاکستانی معیشت میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ان تبدیلیوں کے لئے وہ سٹرکچرل چینج کی اصطلاح استعمال کرتے رہے۔

ٹی وی پروگرامز تک میں سابقہ وزرا، خزانہ سیکریٹری، یونیورسٹی پروفیسر، بین الاقوامی ماہرین، ہر کوئی ہمیں سمجھاتا رہا کہ کب تک ہم سبسڈی اور بیساکھیوں کے ذریعے ٹیکسٹائل، آٹوموبل، انجیئنرنگ، شوگر اور دیگر صنعتوں کو چلائیں گے۔ کب تک یہ بزنس ہاؤس سازش، دھونس، دھاندلی اور دھمکی سے اربوں روپوں کا منافع جیبوں میں ڈال کر ملک سے باہر منتقل کرتے رہیں گے اور حکومت ان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہے گی۔

ہمیں بیس سال سے بھی زیادہ عرصے سے یہ بتلایا جاتا رہا کہ تاجر برادری ٹیکس نہیں دیتی، ملکی معیشت کا پچاس فیصد تک بلیک اکانومی کا حصہ ہے۔ ہمیں بتایا جاتا رہا کہ پراپرٹی اور ہول سیلر ٹیکس نیٹ سے باہر ہے، جسے اندر لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا جاتا رہا کہ ایک فیصد سے بھی کم آبادی ٹیکس فائلر ہے۔

صرف اتنا ہی نہیں، ہمیں یہ بھی بتایا جاتا رہا کہ سرمایہ دار اپنا منافع ملک میں کبھی لاتا ہی نہیں۔ ایکسپورٹر باہر ہی اپنے حصے کا منافع ڈالرز کی شکل میں مخفوظ کر لیتا ہے۔ اُتنی مالیت کا مال ایکسورٹ نہیں کرتا، جتنی ری بیٹ لے لیتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا رہا کہ اگر صرف اس سرمایے کو واپس لانے کا انتظام کر لیا جائے، اگر تاجروں کی جانب سے دُبئی اور لندن میں خریدی جانے والی پراپرٹی کا پیسہ واپس لے آیا جائے، اگر ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے اور مختلف صنعتوں کو دی جانے والی مدد صحت اور تعلیم کے شعبوں کی طرف موڑ دی جائے تو بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں واقع ہوں گی۔

یہ بات بھی ہم نے بارہا سنی کہ بجلی، پانی اور گیس کے بلوں میں حکومت سبسڈی دیتی ہے۔ عوام اسکے باوجود چوری بھی کرتے ہیں۔ ایک جانب عوام ٹیکس نہیں دیتے، دوسری جانب چوری بھی کرتے ہیں۔ سبھی ماہرین کا یہ ماننا تھا کہ ہمیں سختی کے ساتھ اس معاملے سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

سٹاک مارکیٹ، فاریکس ٹریڈ ، یہ وہ شعبے ہیں جن کو ہمیشہ ماہرین کالے دھن اور جوئے کی آماجگاہ قرار دیتے رہے۔ حکومت اور کچھ سرمایہ دار سٹاک اور فارکیس مارکیٹس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جس کے بعد انڈیکس اور قیمتوں کو آسمان پر پہنچا دیتے ہیں۔ مصنوعی طور پر پیدا ہونے والی اس ہائپ میں چھوٹا انویسٹر مارا جاتا ہے کیونکہ وہ بظاہر آسمان کو جاتی تجارت کو حقیقی تجارت سمجھ بیٹھتا ہے۔ اس لئے ماہرین کے نزدیک حکومت کو کرنسی، فاریکس، سٹاک مارکیٹ ان سب کو طلب اور رسد کے آسرے پر چھوڑ دینا چاہیئے۔ گیس بجلی اور پانی سے سبسڈی ختم کر دینا چاہیئے اور بڑے صنعتی شعبوں کو جو خصوصی رعایت دی جاتی ہے، اسے بھی ختم کر دینا چاہیئے۔

اس وقت عمران خان بالکل یہی کر رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی پالیسی اُسی وزڈم اور سوچ کا نتیجہ ہے، جو ہم نے پیدا کی۔ جسے ہم برسوں سے سُنتے چلے آ رہے ہیں۔ صرف چند ہی ماہ میں ایسا رویہ اختیار کرنا کہ جیسے ہمیں تو کچھ پتہ ہی نہیں اور حکومت آخری درجے کی نااہل ہے۔ میرے خیال میں اس بات کو اس نیتجے کو پیش کرنے سے پہلے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ عمران خان نے ہمیشہ یہ دعوی کیا تھا کہ وہ میرٹ پر تعیناتیاں کرے گا۔ اس وقت سٹیٹ بنک کے گورنر اور وزیر خزانہ کی تعلیمی قابلیت ، تجربے اور اہلیت سے کون انکار کر سکتا ہے؟

میرے نزدیک حکومت کو کوسنے یا بُرے بُرے منہ بنانے کی بجائے ہمیں خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ اپنے خوابوں اور آئیڈیلز کو دوبارہ سے جانچنے کی ضرورت ہے۔ شاید مسئلہ عمران خان کے اقدامات میں نہیں، ہمارے اُن آئیڈیلز میں ہے جو پچھلے بیس سال سے ہم نے عزیز از جان بنائے رکھے۔ شاید مسئلہ ہماری نظر، ہماری معاملہ فہمی اور ہماری سوچ میں ہے۔ اگر آج حکومت کی پالیسیاں غلط ہیں تو یہ ساری کی ساری پالیسیاں ہماری بیس سال پرانی سوچ کا عملی نمونہ ہیں۔ اگر نتیجہ غلط ہے تو پالیسیاں نہیں، ہماری سوچ غلط تھی ۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).