پیچیدہ مسائل ہنر اور سلیقہ مانگتے ہیں، غصہ یا جنون نہیں


ایک ماہ سے کچھ زیادہ عرصہ ہوا کہ ایک خبر دبے پاؤں چلی آئی کہ وزیر اعظم عمران خان، اسد عمر کی دلجوئی کا علاج کچھ یوں کرنا چاہتے ہیں کہ انہیں قومی اسمبلی کا سپیکر منتخب کروا دیا جائے۔ ضروری تھا کہ موجودہ سپیکر اسد قیصر خود اپنا استعفیٰ پیش کردیں اور جب اس سلسلے میں عمران خان نے اسد قیصر سے ملاقات کی تو ان سے فوری تعاون یعنی استعفیٰ کا جواب خان صاحب کو وہ نہیں ملا جس کی انہیں توقع تھی۔

میں نے معلومات اکھٹی کرنا شروع کیں اور کریدا تو رد عمل ملا جلا سا تھا کہ ایسا ہے تو نہیں مگر ایسا ہونے کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ سپیکر کی ووٹنگ سیکرٹ ہوتی ہے اور اگر خان صاحب کو کسی نے بہکا بھی دیا تو ایسا موقع آنے پر ان کو بھی لگ پتہ چل جائے گا۔ اس انداز سے میرا شک گہرا ہو گیا کیونکہ اس طرح کی خبر پر عام رد عمل یہ ہوتا کہ میرا لیڈر یا جماعت جہاں مناسب سمجھے گی مجھ سے کام لے گی۔ جب یہ جواب ملے کہ کر لیں کوشش پتہ چل جائے گا وغیرہ تو دال میں کچھ کالا ضرور ہوتا ہے۔

چند دن گزرے کہ اسمبلی اجلاس میں، شہباز شریف آصف علی زرداری اور خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے پر وزیر اعظم کی جانب سے واضح تشویش سامنے آنے لگی۔ جس کی انتہا یہ ہوئی کہ عمران خان نے قومی اسمبلی کی حالیہ تقریر میں سپیکر اسد قیصر کی موجودگی میں سب کے سامنے پروڈکشن آرڈر پر تنقید کی اور کہا کہ یہ واحد اسمبلی ہے جہاں چوروں کو اسمبلی آنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اسد قیصر کا چہرہ دیکھنے لائق تھا، مگر ہوا کیا؟ آصف زرداری اور خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر چند ہی گھنٹے بعد دوبارہ نکل چکے تھے۔ اس کا جواب وفاقی کابینہ کے آج کے اجلاس میں سامنے آ چکا کہ پروڈکشن آرڈرز کے قوانین میں ترمیم کی جائے۔

مطلب یہ کہ اسد عمر کو منانے کی کوشش یا تجویز نے تو کامیاب کیا ہونا تھا، الٹا اسد قیصر اب واضح طور پر سامنے کھڑے ہو گئے کہ ادھر آؤ گے تو جواب ملے گا۔ اسد قیصر نے ایسا کیوں کیا، اس کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ مختصر یہ کہ اسد قیصر، پختونخوا میں تحریک انصاف کے بانیوں میں سے ہی نہیں بلکہ صوبے میں اسے کھڑے کرنے والوں میں تھے۔ دیکھنے والے سب گواہ ہیں کہ دن رات ایک کرتے اسد قیصر نے کس طرح تحریک یا خان صاحب کی سالہاسال خدمت کی۔ جب 2013 کے انتخابات کی نتیجے میں تحریک نے پختونخوا میں حکومت بنائی تو سب کا خیال تھا کہ وزیر اعلیٰ اسد قیصر ہی ہوں گے جو کہ پارٹی کے صوبائی صدر بھی تھے۔ مگر قرعہ نکلا پرویز خٹک کا اور اسد قیصر، صوبائی اسمبلی کے سپیکر بن کر خاموش ہو گئے۔ یوں ان کی مثال، 1997کے انتخابات کے بعد پنجاب کے چوہدری پرویز الٰہی سے ملتی جلتی سی بن گئی جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر صرف اور صرف انہی کا نام سامنے تھا کہ اچانک شہباز شریف سامنے آگئے اور چوہدری صاحب کو سپیکر شپ پر گزارا کرنا پڑا۔ 2018 کے انتخابات کے بعد وقت تھا کہ اسد قیصر کو پختونخوا کی وزارت اعلیٰ سے نوازا جاتا مگر اس مرتبہ بھی ان کو وہ تو نہ ملا جس کی خواہش وہ دل میں دبائے بیٹھے تھے مگر قومی اسمبلی کی سپیکر شپ نے انہیں خفا بھی نہ کیا۔ ظاہر ہے کہ انہیں سیاست میں قومی سطح پر مرکز میں ایک اہم کردار مل رہا تھا اور اب وہ قومی اسمبلی میں جوہر دکھا سکتے تھے۔ محنتی ہونے کی وجہ سے وہ تعلقات بنانے اور نبھانے کا سلیقہ بھی جانتے ہیں۔

ماضی کو سامنے رکھتے اور عمران خان کی سوچ کو جانتے ہوئے ظاہر ہے کہ اب انہوں نے اپنے تعلقات ہر اس جگہ بنائے جہاں سے انہیں طاقت مل سکتی تھی کہ وہ خان صاحب کی جکڑ سے آزاد ہو سکیں اور میرا اندازہ ہی نہیں سامنے آتے واقعات بتا رہے ہیں کہ وہ خان صاحب کی جکڑ یا پکڑ سے آزاد ہو چکے ہیں۔ بات پھر وہی کہ اسد عمر نے تو کیا ماننا تھا، اسد قیصر بھی نرم الفاظ میں محتاط ہو گئے۔

گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں دو دن گزارے اور ہمیشہ کی طرح تشنگی لئے واپس لوٹا کہ وہاں خبروں کا نہ ختم ہوتا سلسلہ اشتیاق بنائے رکھتا ہے۔ مگر پھر بھی اس دورے میں جن باخبر ترین دوستوں سے ملاقات ہوئی ان سے مل کر تشویش میں اضافہ ہی ہوا کہ ہم بے خبری میں کس انجام کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ عرض کرتا ہوں کہ جس دن آصف زرداری کو گرفتار کیا گیا اس رات ان کی صاحبزادی آصفہ بھٹو، ایک سو تین بخار کے ساتھ شدید پریشانی کے عالم میں رہیں، ان کی اسی پریشانی اور بیماری کو لے کر بلاول بھٹو نے سندھ میں جلسے سے خطاب کرتے کہا تھا کہ میں اپنی بہن کے ایک ایک آنسو کا بدلہ لوں گا۔ ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ بلاول بھٹو کو اپنا لہجہ نرم کرنے کی اعلی ترین سطح سے کوشش ہوئی اور ہو رہی ہے۔ مصطفیٰ نواز کھو کھر، اس کے گواہ بھی ہیں اور کردار بھی مگر وہ بلاول کے لئے کام کرتے ہیں نہ کہ بلاول انکے لئے لہذا ان کی بھی ایک حد ہے وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔

واضح الفاظ میں یہ کہ بلاول بھٹو اب نہ ملک ریاض کی نصیحت سننے کو تیار ہیں نہ آصف زرداری کی۔ وہ جوانی کے اس دور میں ہیں جہاں موت کو گلے لگانا ایک رومانس کا درجہ رکھتا ہے۔ ان کے ساتھ بہت دھیان سے بات کرنا ہوگی، انہیں گلے لگا کر محبت سے شاید منا لیا جائے، اگر طاقت کا استعمال ہوا تو پھر میدان میں آصفہ بھٹو ہوں گی جو کہ سندھ میں سیاسی ایٹم بم ثابت ہوں گی۔ اس موضوع پر اس سے زیادہ کچھ لکھنے کی ہمت نہیں۔

پنجاب کی صورت یہ ہے کہ عمران خان اپنی ضد پر اڑے ہیں کہ چور نواز شریف کو جیل میں رکھو تو پیسہ واپس مل جائے گا۔ وہ تو نہ ملا، آج یہ سوچ سامنے آئی کہ پیسہ اس لئے نہیں مل رہا کہ نواز شریف کو مطلوبہ معیار کی جسمانی تکلیف پہنچائی ہی نہیں جا رہی لہذا ان کو بی کلاس سے نکالا جائے اور عام قیدیوں کے ساتھ ڈالا جائے تو پھر وہ پیسہ دے دیں گے۔ اتنا عرض کروں گا کہ سیاسی حکومت اور اغوا برائے تاوان گروپ میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ سعودی ولی عہد کی کارروائی کی مثالیں دینے والے یا تو سعودی نظام حکومت کو نہیں جانتے یا پاکستان کو نہیں جانتے۔ لیکن جو بات سب جانتے بوجھتے نظر انداز کر رہے ہیں وہ ہے نواز شریف کا ممکنہ انجام۔

 مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2