شعبدے باز اور نفسیاتی تشخیص کا سراب


 ویسے تو کہا جاتا ہے شعبدے بازاپنے راز کبھی نہیں بتاتا مگر ایک انگریزی چینل پر شعبدے بازوں کے کرتبوں کے پول بڑے عرصے سے کھولے جا رہے ہیں۔ پروگرام کا نام ہے Magician’s secrets revealed۔ ہم بھی یہ پروگرام کافی شوق سے دیکھتے ہیں۔ وجہ یہ نہیں کہ ہم کو شعبدوں کی حقیقت میں کوئی دلچسپی ہے۔ نہیں ہر گز نہیں۔بلکہ ہم کو وہ خواتین پسند ہیں جو غربت کا اشتہار بنی اس شعبدے باز کے اردگرد موجود ہوتی ہیں۔

آج ہم بھی کچھ شعبدوں سے پردہ اٹھانے والے ہیں۔ مگر ہمارے پاس اس انگریزی چینل کی طرح غریب خواتین نہیں ہیں۔ہمارا ”کاریکرم“ بہت سادہ اور صاف ستھرا ہے، بالکل جنرل ضیاء کے دور کے PTV کی خبروں کی طرح۔ مگر بے فکر رہیں راز بہت بڑ اکھلنے والا ہے۔ پاکستان ایسوسی ایشن آف کلینکل سائیکولوجسٹس اور پاکستان سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن کے ممبران سے گزارش ہے کہ اس مضمون کو اس سطر سے آگے نہ پڑھیں۔ بلاوجہ ان پر گراں گزرے گا اور ہمیں بددعائیں دیں گے۔ہم مظلوموں کی بددعاؤں سے بہت ڈرتے ہیں، خصوصاً ایسے مظلوموں کہ جن کے سماجی مقام پر پہلے ہی دوائیاں دینے والے سائیکاٹرسٹ اور چونا لگانے والے ”مائنڈ سائنسٹسٹ“ قابض ہیں۔

بہر حال سچ کو مصلحتوں کا تابع نہیں ہونا چاہئے اس لئے آئیے بات شروع کرتے ہیں۔ نفسیاتی علاج کے لئے کسی نفسیات دان کے پاس جائیے تو پہلے نفسیاتی تشخیص (Psychological Assessment) ہو گی، جس میں نفسیاتی امتحانات (Tests) یا پیمانے (Measures) استعمال ہوں گے۔ آپ نفسیاتی علاج کرانے نہیں جاتے بلکہ افواج میں بحیثیت افسر بھرتی ہونے جاتے ہیں تو بھی آپ پر نفسیاتی امتحان کا مرحلہ آئے گا۔ بلکہ اب بہت سے نجی اداروں میں بھی اور پولیس کے بعض اہم شعبوں میں بھی اہلکاروں کو اس عمل سے گزرنا ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں ذہانت کی آزمائش اب خصوصی اسکولوں سے نکل کر عام بچوں کے اسکولوں تک پہنچ گئی ہے اوراب تو بڑے لوگوں کو WAIS، WISC اور SFRIT وغیرہ کرانے کاشوق ہو گیا ہے۔ ایسے میں نجی اداروں میں ورکشاپس کروانے والے بھی اچھے پیسے بنا رہے ہیں اور مائرز برگس (Myers Briggs) پرسونالٹی ٹیسٹ بھی زوروں پر بک رہا ہے۔ (Aptitude Tests) کروا کے بچوں کو ممکنہ پیشوں کے بابت بھی سمجھایا جا رہا ہے۔

تاہم نفسیاتی امتحان سے گزرنے سے پہلے ہمیں جان لینا چاہیے کی یہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ان کی بہت سی اقسام ہیں اور ان کو جاننے یا کروانے کے لئے خاص نوع کی تعلیم اور تجربہ ضروری ہوتا ہے۔ تحریری سوالنامے جن میں ”ہاں“،”نہیں“ یا پھر کئی درجات میں سے کسی ایک پر نشان لگا کر کسی سوال کی درجہ بندی کی جاتی ہے کو کروانے آسان ہوتے ہیں۔ ان کی اسکورنگ بالکل کسی حساب کے سوال کی طرح فارمولے سے ہوتی ہے اور جو نمبر کوئی فرد اِن میں حاصل کرتا ہے اُن کو مینول سے دیکھ کر با آسانی نتیجہ برآمد کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ایک غصے کا پیمانہ بتا سکتا ہے کہ آپ اپنے ہم عمروں کے موازنے میں کتنے غصور ہیں اور یہ غصہ کس طرح ظاہر کرتے ہیں۔

اِن ”درآمد کردہ“ نفسیاتی امتحانات کے بارے میں کلیدی بات یہ ہے کہ یہ ہمارے ملک میں اسی صورت میں کارگر ہو سکتے ہیں جب اُن کے Norms پاکستان میں ہی بنے ہوں اور یہ اردو میں ہوں۔ مگر ایسا بدقسمتی سے کم ہی ہے۔دراصل بغیر مقامی تحقیقات کے ان امتحانات کے نتائج کوئی معنی رکھتے ہی نہیں۔ مقامی پیمانے شاذ و نادر ہی بنے ہیں اور جو بنے ہیں وہ بھی بس ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے کے لئے۔ وہ ایسے ہیں کہ انہیں آپ استعمال کر ہی نہیں سکتے۔ ہمارے ملک میں مقامیت کو محققین نے کس طرح سمجھا ہے اس کی سب سے مزاحیہ مثال راقم کو ایک مقامی طور پر بنے ذہانت کے امتحان میں دیکھنے کو ملی کہ لوٹے کی تصویر نہایت بھونڈی سے بنا کر اس میں سے ٹوٹی ہٹا کر پوچھا گیا تھا اس میں کیا کم ہے؟

پھر کچھ اسی نوع کے”ٹوٹی والے“ محققین نے اپنی اپنی مرضی کی تبدیلیاں نفسیاتی پیمانوں میں کر لی ہیں، مثلاً SFRIT میں ایک سوال ہے:

What is the difference between an ape and a monkey?

اس کا مقامی ورژن ہماری ایک نفسیات دان بہن نے خود ہی یہ بنا لیا ہے:

”گدھے اور گھوڑے میں کیا فرق ہے؟“

اب یقینا کسی اور مقامی نفسیات دان نے اپنی مرضی سے کوئی اور بھی مقامی ورژن بنایا ہو گا، مثلاً

”گدھے اور خچر میں کیا فرق ہے؟“ یا ”بندر اور ریچھ میں کیا فرق ہے؟“ الغرض جتنے نفسیات دان اتنے مقامی ورژن۔ پھر اس صورت میں دو افراد کے حاصل کردہ نتائج میں موازنہ کیونکر ہو سکے گا؟ نفسیاتی پیمائش کا کلیدی اصول ہی یہ ہے کہ بالکل ایک ہدایات اور ایک سوالات ایک جیسے ماحول میں کئے جائیں۔

پھر ہمارے وطن میں صرف ان پیمانوں کی ہی ٹانگ نہیں توڑی جا رہی، بڑا بھیانک مذاق پروجیکٹو نفسیاتی امتحانات (Projective Tests)  کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ اس کی سب سے اہم مثال وہ ہے جو خاص طور پر نامکمل جملوں کی تکمیل (Incomplete sentence blanks)  کے ساتھ افواج کے ٹیسٹ میں کیا جا رہا ہے۔ اس امتحان کے سارے فوائد کو ایک طرف پھینک کر بس ایک نوع کا اپنی اپنی سمجھ کے مطابق تکا مار دیا جاتا ہے۔

یہی کام نفسیاتی امراض کی تشخیض میں تصویریں دیکھ کر کہانیاں بنانے والے امتحان تھیمیٹک اے پرسپشن ٹیسٹ(TAT) کے ساتھ ہو رہا ہے۔ نہ اس کا فارم بھرا جا رہا ہے، نہ ہی کہانی کی تھیم Interprative, Descriptive یا Sympetic سطح پر نکالی جا رہی ہے نہ ہی کوئی اور قاعدہ مدنظر ہے۔ بس ایک بچکانہ انداز میں کچھ بھی معانی کہانیوں سے اخذ کئے جا رہے ہیں اور رورشاک انک بلاٹ(Rorschach inkblot)ٹیسٹ تو یوں سمجھئے کہ نفسیات دان برادری میں کل 15 یا 20 لوگ ہی صحیح طور پر کرنا جانتے ہیں۔

یہ جو درجن درجن بھر نفسیاتی امتحانات ہر مریض کے لیے جاتے ہیں، یہ خود مریض پر ظلم ہے اور اس سے حاصل بھی کچھ نہیں ہو رہا۔جو نفسیاتی تشخیص کی رپورٹیں ہمارے ملک میں بن رہی ہیں وہ الحمد للہ اتنی عامیانہ ہیں کہ ان کو پڑھ کر لگتا ہے کہ کسی آٹھویں جماعت کے بچے نے بنائی ہیں۔اگر علم نفسیات کی حقیقی آگاہی ہو تو محض ایک نفسیاتی امتحان سے بھی لاکھ باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں جو اَب درجن بھر ٹیسٹ کر کے بھی معلوم نہیں ہو رہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ اجتماعی نااہلی ہی ہے جس نے علم نفسیات کے ماہرین کی جمیع اکثریت کو کسی ٹوپی سے خرگوش نکالنے والے شعبدے باز کی سی راز داری عطا کی ہے۔ جن بیچاروں پر نفسیاتی ٹیسٹ ہوتے ہیں وہ تو سمجھنے لگتے ہیں کہ نہ جانے ہماری فطرت کے کون سے عمیق راز اب معالج پر کھل گئے ہوں گے۔ اسے کیا پتہ ہوتا ہے کہ امتحان لینے والے کو خود امتحان کی تشریح ہی معلوم نہیں۔ علم نفسیات کے عالمین اور عاملین کی جمیع اکثریت کی اجتماعی نااہلی سے ہی دوائی والے سائیکاٹرسٹوں اور چونے والے مائنڈ سائٹسٹوں کی دکان بڑی ہو گئی ہے۔ مگر پھر بات گھوم پھر کر یہاں پہنچتی ہے کہ اتنے ذہین ہوتے تو نفسیات ہی کیوں پڑھتے؟ کلکٹر، کمشنر،  SSP  نہ بن جاتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).