شکریہ عمران خان: جنرل حاجی ضیا کا دور یاد آ گیا


کافی دنوں سے کچھ لکھا نہیں تو سوچا کہ ایویں میں پڑھنے والوں کو متاثر کرنے کی خاطر، اک عہد ساز امریکی ماہرِ عمرانیات، ایلون ٹافلر کا اک قول ہی سناتا چلوں (ماخوذ): سیکھنے سے زیادہ مشکل، سیکھے ہوئے کو ان-سیکھنا ہوتا ہے اور اس سے بھی زیادہ مشکل، دوبارہ سے اور درست سیکھنا ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ عمرانیات سے مراد سوشیالوجی ہے۔ گو کہ ہمارے ہینڈسم وزیر اعظم صاحب کے کہے اور کرنے کو سمجھنے کے لیے اک نئے علم کو تخلیق کرنا ہی پڑے گا۔
فاتح افغانستان، حاجی ضیا کے دور میں آنکھ کھلنا شروع ہوئی۔ ملکوال کی گلی امرتسریاں کے تمام گھروں شاید ایک یا دو ٹی وی تھے۔ جن میں سے ایک، خالہ اور نِگو باجی کے ہاں تھا۔ اپنے ابو کے ساتھ، اس بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر، بقول تارڑ صاحب، مردہ مینڈک کی آنکھوں والے ڈکٹیٹر کی مارشل لائی تقریر بہت دھندلے خاکے کی صورت میں یاد ہے۔
سنہ 1980 میں، میں آٹھ برس کا تھا اور اپنے تشکیل پانے والے سالوں میں اک ہی پیغام مسلسل سننے کو ملتا رہا کہ سیاستدان غدار تھے۔ وہ عجب دور تھا کہ جس میں ولی خان، غوث بزنجو، جی ایم سید اور جہانگیر بدر غداری کے تاج پہنے پھرتے تھے۔
مگر حاجی ضیا کو الیکشنز کروانے پڑے اور انہیں سیاستدانوں نے ملک کی زمام کار سنبھالی۔
کرسٹینا لیمب، گو کہ راقم اک عرصہ سے انہیں صحافی سے زیادہ اب پروپیگینڈسٹ کی نظر سے دیکھتا ہے، مگر میری سوچ کے مطابق، جب وہ صحافت کرتی تھیں، تو انہوں نے بی بی محترمہ شہید کے ساتھ، 1986 میں پاکستان کا پہلا سفر کیا اور پاکستان میں اپنے قیام کے دوران اپنے وقت کی مشہور کتاب، Waiting for Allah، تحریر کی۔
اس کتاب میں بی بی کی بطور وزیراعظم حلف برداری کی تقریب کا احوال بھی درج ہے۔ وہ لکھتی ہیں (ماخوذ) کہ حلف برداری کی تقریب کے بعد، بی بی سے زیادہ لوگ، آرمی چیف جناب اسلم بیگ اور صدر مملکت، جناب غلام اسحٰق خان کو مبارک دے رہے تھے۔ بی بی محترمہ نے جنرل اسلم بیگ صاحب کو تمغہ جمہوریت بھی نوازا۔ مگر یہ بےسود رہا۔
آج کل معیاری گھڑے ہوئے “عجیب و امیر” پاکستانی لبرلز کے ڈارلنگ، جناب حسین حقانی صاحب ان دنوں، بریگیڈیر امتیاز کی شِیر خواری کرتے تھے۔ دونوں نے خوب کھل کر کھیلا اور محترم بریگیڈئیر صاحب کی ایما پر اپنے وقت کے اتھرے، اور آپھرے، جناب نواز شریف صاحب کے کندھوں پر بندوق رکھ کر بی بی محترمہ پر مسلسل چاند ماری بھی کرتے رہے۔

خادم کو بہت ہلکا سا، مگر میجر عامر صاحب کی قیادت میں آپریشن مڈنائٹ جیکال یاد ہے۔ بی بی کو 18 ماہ کے بعد نکال باہر پھینکا گیا۔ ان دنوں شہید کر دئیے جانے والے، محسن نقوی صاحب کی اک نظم “یا اللہ، یا رسول، بینظیر بےقصور” معاشرے میں عام سننے کو ملتی تھی۔
میاں صاحب آئی جے آئی کے پلیٹ فارم پر سے نمودار ہوئے، اور اک تاریخی “جُھرلُو” کے نتیجے میں 1990 میں وزیراعظم بن گئے۔ یہ لفظ جھرلو، ان دنوں پی پی کے دوست بکثرت استعمال کیا کرتے تھے۔ میاں صاحب کی بھی نہ بن سکی، اور پھر 1993 میں انہوں نے اپنے تئیں اک “پھٹے توڑ” تقریر کی جس میں ان کا اک فقرہ، آج بھی یاد ہے کہ “میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔”
انہی دنوں، طاقت کے غلام صفت، جناب غلام اسحٰق خان صاحب کا اک فقرہ بھی بہت مشہور رہا کہ “میں دودھ پیتا ہوں، اور سیب کھاتا ہوں۔ میں ٹِیک ٹاک ہوں۔” صاحب، میاں صاحب کو چلتا کرکے خود صدر رہنا چاہتے تھے، مگر محترم جنرل وحید کاکڑ صاحب کے زیرانتظام اک فارمولا میں دونوں کو چلتا کیا گیا۔
بی بی محترمہ پھر آ گئیں۔ یہ 1993 تھا۔ بی بی محترمہ پھر چلی گئیں۔ یہ 1997 تھا۔
میاں نواز شریف صاحب پھر آ گئے۔ یہ 1997 تھا۔ میاں صاحب پھر چلے گئے۔ یہ 1999 تھا۔
مشرف صاحب بغل میں اپنے دو کتے، ڈاٹ اور بڈی دبا کر آئے۔ رفیق تارڑ صاحب کو چلتا کیا۔ پھر جمالی صاحب کو چلتا کیا۔ شوکت عزیز صاحب کو لائے۔ پھر افتخار چوہدری صاحب کو چلتا کیا۔ پھر خود چلتا ہوئے۔
پھر خالقِ کائنات کو پاکستان پر ترس آ ہی گیا اور 2011 میں پاکستان میں جناب عمران خان صاحب کا ظہور ہوا۔ اور سیٹھ-میڈیا کی یکطرفہ سیڑھی پر دگڑم دگڑم دوڑتے ہوئے، مسیحائے کائنات (جدید)، جناب عمران خان صاحب بہت کامیابی سے خادم کو اک بار پھر حاجی ضیا کے دور میں واپس لے کر جا چکے ہیں۔
ریاست کے بالآخر ریٹائر ہوجانے والے طاقتوروں کو جیسے اس ملک کے بچوں کے مستقبل سے کوئی غرض ہی نہیں محسوس ہوتی۔ ہمارے آس پاس کی دنیا سیدھی لکیر پر دوڑتے ہوئے مریخ پر سے آگے جا نکلی۔ ہم دائروں میں چوہوں کی طرح دوڑ رہے ہیں۔
آج 2 جولائی 2019 کو، ویسی ہی بیزاری ہے۔ ویسی ہی خاموشی ہے۔ ویسی ہی مایوسی ہے۔ ویسی ہی شورش ہے۔ ویسی ہی بےسمتی ہے۔ ویسے ہی غدار ہیں۔ ویسے ہی منشیات فروش ہیں۔ ویسا ہی سٹیج ہے۔ ویسے ہی اداکار ہیں۔ ویسے ہی ڈائیلاگ ہیں۔ وہی ماحول ہے۔ وہی مخول ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).