عمان اب پاکستانی بلوچوں کو نوکریاں کیوں نہیں دے رہا؟


عمانی فوج

‘میں نے اپنی زندگی کے پانچ سال اس انتظار میں گزارے ہیں کہ کہیں سے میری نوکری کے حوالے سے جواب آئے گا لیکن اب تک کسی نے کچھ بھی نہیں بتایا ہے اور ایسا تاثر دیا جارہا ہے جیسے میں کچھ غلط کرنے جا رہا ہوں۔’

25 سالہ گہرام بلوچ کا یہ بیان عُمانی فوج میں بھرتی ہونے کی خاطر لیے جانے والے انٹرویو کے حوالے سے ہے۔ وہ ان دو درجن کے قریب بلوچ نوجوانوں میں سے ایک ہیں جو ملازمت کے لیے انٹرویو کے پانچ سال بعد بھی جواب کے منتظر ہیں۔

ایک پاکستانی شہری کا ایک غیر ملک کی فوج میں بھرتی کا خواہشمند ہونا شاید آپ کو عجیب لگے لیکن پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر کے باسیوں کے لیے خلیجی ریاست عمان میں ملازمت کی خواہش کوئی عجیب چیز نہیں۔

بلوچستان سے عُمان جانے والوں میں ایک بڑی تعداد طلبہ اور محنت کشوں کی رہی ہے تاہم گذشتہ چند سالوں میں یہ عمل اپنے اختتام کو پہنچتا ہوا نظر آرہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

گوادر کی تاریخ پر ایک نظر

گوادر کا پرل کانٹینیٹل ہوٹل، سب سے بڑی سرمایہ کاری

گوادر:’ریڈ زون میں مچھلیاں پکڑنا تو دُور، جانے کی بھی اجازت نہیں‘

اس بارے میں ورلڈ بینک کی اپریل 2019 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، خلیجی ممالک میں جنوبی ایشیا سے مزدوروں کے جانے کا عمل بہت حد تک کم ہو گیا ہے۔

ان ممالک میں عُمان کا نام بھی لیا گیا ہے جہاں رپورٹ کے مطابق محنت کشوں کی بھرتیوں کے عمل میں کمی کی ایک بڑی وجہ وہاں پر ہونے والی ‘عُمانائزیشن’ ہے جس کا مطلب کسی بھی قسم کی بھرتیاں کرتے وقت اسامیوں پر اپنے شہریوں کو ترجیح دینا ہے۔

عمان اور گوادر کے تعلقات کی تاریخ

بلوچستان اور سلطنتِ عُمان کے تعلقات خاصے قدیم ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق مکرانی بلوچ عمان کی آبادی کا 25 فیصد حصہ ہیں اور انھیں وہاں البلوشی پکارا جاتا ہے۔

سنہ 1908 میں شائع ہونے والی کتاب گیزیٹئیر آف پرشیئن گلف، عُمان اینڈ سینٹرل عربیہ عرب اور خلیجِ فارس میں کام کرنے والے برطانوی سفارت کاروں کے لیے علاقے کے بارے میں معلومات کے حوالے سے اہم حیثیت رکھتی تھی۔ اس کے مصنف جان لاریمر کے مطابق 18ویں صدی میں خان آف قلات نوری نصیر خان کے دور میں عمان کے ایک شہزادے ’باہوٹ‘ بن کر یعنی پناہ کی تلاش میں ان کے پاس آئے تھے۔ شہزادے نے اپنی سلطنت واپس حاصل کرنے کے لیے بلوچستان سے مدد کی استدعا کی تھی لیکن نوری نصیر خان اس معاملے میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محقق اور پروفیسر حفیظ جمالی کا کہنا تھا کہ ’خان آف قلات نے اس وقت گوادر کی بندرگاہ جو تب غیراہم تھی ان کو تحفے کے طور پر دے دی تاکہ اس سے ہونے والی آمدن سے وہ اپنا گزارہ کرسکیں اور پھر گوادر باقاعدہ طور پر عُمانی سلطنت کا حصہ بن گیا۔’

تاہم بلوچ قوم پرست اس بیانیے کو نہیں مانتے اور ان کا ماننا ہے کہ عُمانی شہزادے کو گوادر عارضی طور پر ان کی حفاظت کے لیے دیا گیا تھا۔ اور ان کو گوادر پر مکمل حق حاصل نہیں تھا۔

عمان اور پاکستان کا معاہدہ

پاکستان اور عمان کے درمیان معاہدے میں طے پایا تھا کہ بلوچ شہریوں کو عمان فوج میں بھرتی کیا جائے گا

بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر کو دیکھا جائے تو وہاں آج بھی عُمانی دور کے قلعے صدیوں پرانے شاہی بازار میں نظر آتے ہیں جو گوادر کے ایک ایسے دور کی عکاسی کرتے ہیں جب سرحدیں صرف ایک لکیر سمجھی جاتی تھیں اور سفر دشوار ہونے کے باوجود لوگ کام کی غرض سے مختلف ممالک آتے جاتے رہتے تھے۔

گہرام بلوچ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ بھی ایسے ہی زمانے میں وہاں منتقل ہوئے تھے جب عمانی فوج میں کام کرنے کے سبب عمان کی شہریت ملنا خاصا آسان تھا۔

پروفیسر حفیظ جمالی نے جان لاریمر کی لکھی ہوئی بات دُہراتے ہوئے کہا کہ ‘جب عُمانی سلطنت کا پھیلاؤ ہوا یعنی جب عُمان نے افریقہ اور بحرہند تک اپنا قبضہ جمایا تو مکران کے بلوچ بطورِ سپاہی عُمان کے پھیلاؤ میں ایک اہم کردار نبھاتے ہوئے ابھرے۔’

عُمانی فوج میں بلوچ سپاہی

جب 1947 میں تقسیمِ برصغیر کے بعد انڈیا اور پاکستان دو آزاد ملک بنے تو حکومتِ پاکستان نے سلطنتِ عمان سے گوادر کو اپنی سرزمین سے نزدیک ہونے کی بنیاد پر خریدنے کی بات کی۔ یہ معاہدہ سنہ 1958 میں طے پایا جس کے تحت پاکستان نے عمان سے گوادر 84 لاکھ ڈالرز میں خرید لیا۔

اسی معاہدے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ بلوچ شہریوں کو عمانی فوج میں بھرتی کیا جائے گا۔ اس شق پر عمل درآمد ہوا بھی لیکن 1958 کے بعد اس معاہدے کی یہ شِق صرف برائے نام رہ گئی ہے۔

اس کی وجہ بتاتے ہوئے پروفیسر حفیظ جمالی نے بتایا کہ ‘عُمانی سلطنت پہلے جن لوگوں کو بھرتی کرتی تھی وہ آس پاس کے علاقوں کو فتح کرنے کی غرض سے کرتی تھی جس میں انھیں انتظامیہ سنبھالنے کے لیے لوگوں کی ضرورت پڑتی تھی۔ 1958 کے بعد تو عُمانی سلطنت خود خلیجی جزائر تک محدود رہ گئی تھی تو افریقی علاقے ممباسا اور زینزیبار جہاں بلوچ سپاہیوں نے جا کر عمانیوں کی طرف سے انتظام سنبھالا وہ ان سے الگ ہو گئے کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں تبدیلیاں آئی تھیں۔’

عمان اور پاکستان کے تعلقات

پروفیسر حفیظ جمالی کے مطابق ‘جب عُمانی سلطنت کا پھیلاؤ ہوا تو مکران کے بلوچ بطورِ سپاہی عُمان کے پھیلاؤ میں ایک اہم کردار نبھاتے ہوئے ابھرے‘

اس صورتحال میں عمان کو بلوچ سپاہیوں کی ضرورت نہیں رہی لیکن علامتی بنیادوں پر کم تعداد میں بھرتیاں جاری رہیں۔

حفیظ جمالی نے بتایا کہ ’اس دوران بلوچ سپاہیوں کی ایک خاص تعداد کی ضرورت اس وقت پیش آئی تھی جب 1970 کی دہائی میں عُمان میں مقامی بغاوت ہوئی تھی۔اس بغاوت سے نمٹنے کے لیے لوگوں کی بھرتیاں کرنی پڑی تھیں لیکن یہ وقتی بھرتیاں تھیں جو اس مسئلے کے حل کے بعد ختم ہو گئی تھیں۔’

بلوچستان کی شورش اور عُمان میں نوکریاں

جب 1970 کی دہائی میں تیل دریافت ہوا اور اس وجہ سے خلیجی ممالک میں تیل کی فراوانی ہوئی تو گوادر اور مکران کے لوگوں کی دلچسپی عمان جانے میں مزید بڑھ گئی۔ اس پر عمان کی طرف سے قدغن لگائی گئی کہ اب نئے لوگوں کو شہریت نہیں دی جائے گی۔

علامتی بنیادوں پر عُمانی فوج میں بھرتیاں بہت حد تک کم ہونے کی ایک وجہ بلوچستان میں شورش سے جُڑی ہے۔

بلوچستان کے علاقے کیچ میں عمانی فوج میں بھرتی ہونے کے لیے آس لگائے بیٹھے افراد میں بلخ شیر بھی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘انٹرویو کے دوران مجھ سے عسکری ترجمان نے کہا کہ اگر ہم آپ کو عُمان جانے دیتے ہیں تو کیا آپ وہاں پر لی گئی فوجی تربیت پاکستان کے خلاف استعمال تو نہیں کریں گے؟‘

بلخ شیر کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس اس بات کا جواب نہیں تھا، سوائے حیرانی ظاہر کرنے کے کیونکہ میں صرف نوکری کے لیے وہاں جانا چاہتا ہوں۔مجھے یہ انٹرویو سے زیادہ تفتیش لگ رہی تھی۔ اب میں زیادہ خوفزدہ ہوں۔‘

گوادر کی تاریخ

اگر بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر کو دیکھا جائے تو وہاں آج بھی عُمانی دور کے قلعے صدیوں پرانے شاہی بازار میں نظر آئیں گے

محققین کا خیال ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ شک ہر ملک میں پایا جاتا ہے۔ محقق عمیم لطفی کی تحقیق عُمانی بلوچ اور خلیجی ممالک میں ان کی رہائش کے گرد گھومتی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘اس کی وجہ دبئی، شارجہ، مسقط اور بحرین میں چند ایسے مقامات ہیں جو علیحدگی پسند سوچ رکھنے والے لوگوں کے گڑھ کہلاتے ہیں۔’

عمیم کا کہنا تھا کہ ‘ان میں سے جو گروہ ایران مخالف ہیں ان کا خلیجی ممالک بھی ساتھ دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی خاص خیال رکھتے ہیں کہ پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو پنپنے نہ دیں۔’

اس کی ایک اور وجہ فوجی فاؤنڈیشن کا بھرتیوں کے معاملے میں پیش پیش ہونا ہے۔ سنہ 2010 میں فوجی فاؤنڈیشن نے بیرونِ ملک بھرتیوں کے لیے ایک فرم بنائی تھی تاکہ بلوچستان اور دیگر علاقوں کے بیشمار لوگ ذاتی تعلقات کے بجائے ان کے ذریعے باہر جائیں۔

لیکن عمیم کے مطابق ‘اس عمل کا ایک مقصد بیرونِ ملک فوج میں بھرتیوں کو ختم کرنا تھا جو بہت حد تک ہو چکا ہے۔’

گوادر

سنہ 1958 میں طے پانے والے معاہدے کے تحت پاکستان نے عمان سے گوادر 84 لاکھ ڈالرز میں خریدا تھا

ماہرین کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ماڈرن ملٹرائزیشن کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے جس کے نتیجے میں خلیجی ممالک اور خاص کر عُمان ایسے لوگوں کو بھرتی کرنا چاہ رہا ہے جو صحیح طریقے سے تربیت یافتہ ہوں ورنہ وہ اپنے لوگوں پر اکتفا کرنا چاہتا ہے۔

‘ہم اب جہاں ہیں، وہیں ٹھیک ہیں’

عُمان کے شہر مسقط کے نواحی علاقے وادیِ حطات میں زیادہ تر آبادی تربت اور گوادر سے آنے والے لوگوں کی ہے۔

گہرام اور بلخ شیر کے زیادہ تر رشتہ دار اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اب گہرام عمان جانے کے بارے میں پرامید نہیں اور بچوں کو پڑھا کر اپنا گزارہ کرنا چاہتے ہیں۔

ان کے مطابق ’دوسرے ملک کی فوج میں بھرتی ہو کر میں اپنے ملک میں رہائش پذیر اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کو رسوا نہیں کرنا چاہتا۔ میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں۔ میں جہاں ہوں وہیں ٹھیک ہوں۔‘

ادھر بلخ شیر کا کہنا تھا کہ ’ہم دنیا کے کسی بھی ملک چلے جائیں ہمیں شک کی نگاہ سے ہی دیکھا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ ہمارے ملک کا ہمارے خلاف تعصبانہ رویہ ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp