جب ہمیں علیم خان کے نام پر یرغمال بنایا گیا


بات کہنے کو معمولی تھی مگر جب بدمعاشی کا سودا سر میں سمایا ہو تو معمولی باتوں پر ہی بدمعاشی دکھائی جاتی ہے۔ اس لئے یہی بدمعاشی دکھائے ہوئے گزشتہ روز ہمیں دو بچوں اور ڈرائیور سمیت تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے لئے یرغمال بنایا گیا اور رقم کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ ایسا کرنے والا شخص علیم خان کے لئے کام کرتا ہے۔

بات کچھ یوں ہے کہ ہم گزشتہ چار برس سے کرائے کے ایک ایسے مکان میں رہ رہے تھے جس کے مالک عمران انور نے بعد میں اپنے بارے میں یہ بتایا تھا کہ وہ علیم خان کے لئے کام کرتے ہیں۔ آج ریکارڈ چیک کیا ہے تو علم ہوا ہے کہ عمران انور، علیم خان کی کمپنی پارک ویو انکلیو پرائیویٹ لمیٹڈ کا چیف فائنانشل آفیسر ہے۔

تو ہوا کچھ یوں کہ 2015 میں ہم واپڈا ٹاؤن کے نواح میں ایک گھر میں کرائے پر آئے کہ بچوں کے سکول ادھر سے نزدیک تھے۔ گھر ٹھیکیدار کا بنایا ہوا تھا جو بظاہر لش پش تھا مگر تعمیراتی سامان ناقص تھا۔ سال بھر بعد گھر میں دیمک نمودار ہو گئی۔ مالک کو بتایا اور کہا کہ اس کی ٹریٹمنٹ کروا لیں ورنہ لکڑی کا نقصان ہو گا۔ فرمانے لگے کہ دیمک کا کوئی علاج نہیں، آپ بازار سے سپرے لا کر جہاں دیمک دکھائی دیتی ہے کر دیا کریں۔ ہم تین سال اپنے خرچے پر پورے مکان کی پروفیشنل فیومیگیشن کرواتے رہے۔

کچھ عرصے بعد دوسری منزل پر باتھ روم میں لیکیج کی وجہ سے سیم نمودار ہونے لگی۔ اس کے بارے میں مطلع کیا تو کہنے لگے کہ ٹھیکیدار کے بنائے ہوئے گھر میں ایسے مسائل تو ہوتے رہتے ہیں۔ بہرحال ہم نے اسے خود ہی ٹھیک کروا لیا۔ وہ خود تو گھر آتے نہیں تھے مگر سال میں دو مرتبہ اپنے آدمی بھیج کر مکان کی حالت چیک کرواتے تھے اور وہ گھر کی تصویریں اتار کر انہیں دکھانے لے جاتے تھے۔ آخری بار ایسا تقریباً کوئی آٹھ ماہ قبل ہوا تھا اور انہیں گھر میں کوئی مسئلہ دکھائی نہیں دیا تھا۔

اب پانچ چھے مہینے پہلے ہم نے انہیں مطلع کیا کہ دوسری منزل پر پانی کی ٹینکی کے قریب سیپیج آ رہی ہے اور نچلے کمرے اور باتھ کی چھت پر سے پینٹ اکھڑ رہا ہے۔ اور گھر کا پینٹ بھی چار سال پرانا ہو گیا ہے تو وہ بھی دوبارہ کروا دیں۔ انہوں نے اپنے آدمی بھیجے اور پھر ان کا غصے بھرا فون آیا کہ جی آپ نے میرے گھر کا پندرہ سے پچیس لاکھ روپے کا نقصان کر دیا ہے اور یہ ہرجانہ میں آپ سے لوں گا۔ آپ نے چھت پر ایک پنجرہ بنا رکھا ہے یہ سارا مسئلہ اس کی وجہ سے ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا آپ خود آئیں اور دیکھیں۔ وہ نہیں آئے۔ خیر ہم نے خود پچیس ہزار خرچ کر کے سیپیج ٹھیک کروائی جو پانی کی ٹینکی سے ہو رہی تھی اور کمرے میں پینٹ کروا لیا۔ یہ بات پانچ چھے مہینے پرانی ہے۔ اس کے بعد خوب بارشیں برسیں مگر سیپیج نیچے نہیں آئی۔

اب 30 مئی کو موصوف نے نوٹس دیا کہ 30 جون تک گھر خالی کر دیں۔ ہم نے 25 جون کو خالی کر دیا اور انہیں مطلع کیا کہ گھر کا قبضہ لے لیں اور سیکیورٹی وغیرہ کی مد میں جو حساب بنتا ہے وہ کر لیں تاکہ ہم نے کچھ دینا ہے تو وہ ہم دے دیں اور انہوں نے کچھ دینا ہے تو وہ سیکیورٹی کی مد میں واپس کریں۔

ان کے جو حالات چل رہے تھے اسے دیکھتے ہوئے ہمیں یہ اندازہ تھا کہ وہ سیکیورٹی کی پوری رقم ضبط کرنے اور اس کے اوپر بھی ہم سے دیمک اور سیپیج کی مد میں رقم لینے کے خواہاں ہیں۔ اسی وجہ سے احتیاطاً دو مہینے بجلی کا بل بھی جمع نہیں کروایا کہ ہمارا نقصان کم ہو۔ کرائے داری کے معاہدے کی رو سے مکان چھوڑتے وقت سیکیورٹی کی رقم سے بل کے بقایا جات اور کرایہ وغیرہ منہا کر کے ہمیں باقی رقم واپس ملنی تھی۔

خیر انہوں نے فرمایا کہ وہ لاہور میں نہیں اور 30 تاریخ کو ملیں گے۔ 30 کو ملاقات ہوئی۔ وہ دو لینڈ کروزروں میں اپنے مسلح ”باڈی گارڈ“ وغیرہ سمیت تشریف لائے۔ ان کو چیک بک کے ذریعے کرایہ بھی ادا کر دیا جو اصولاً سیکیورٹی کی رقم میں سے کٹنا چاہیے تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ نقصان کا ایسٹیمیٹ لگائیں گے اور پھر حساب کریں گے۔ اگلی صبح کا وعدہ ہوا جسے وہ دوپہر کو پتہ کرنے پر شام پر لے گئے۔ پھر اس سے بھی اگلی دوپہر کو فون کر کے آنے کو کہا تاکہ دونوں مل کر نقصان وغیرہ دیکھ لیں۔ ساتھ مطالبہ کیا کہ پہلے بل کلئیر کیے جائیں پھر آگے بات ہو گی۔ جیسا کہ پہلے بتایا ہے کہ معاہدے میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ یہ بل سیکیورٹی سے منہا کیے جائیں گے۔

دو بجے کے قریب ان کا میسیج آیا۔ اس میں موصوف نے دھمکیاں دیں کہ میں تم سے نمٹ لوں گا وغیرہ۔ بدقسمتی سے یہ میسیج میں نے نہیں دیکھا اور شام کو مقررہ وقت پر ان سے ملنے چلا گیا۔ ساتھ میرے اٹھارہ اور سولہ برس کے بیٹے اور ڈرائیور تھے۔ ادھر جا کر پہلے ایک گاڑی میں ان کے تین چار آدمی تشریف لائے اور بتایا کہ وہ خود تو اسلام آباد میں ہیں۔ حساب کر لیتے ہیں۔ گھر میں جا کر ان کی لسٹ چیک کرنی شروع کی تو پتہ چلا کہ باتھ روم میں لگائے گئے نل اور شاور کے اترے ہوئے کروم کو بنیاد بنا کر وہ ہم سے سارے باتھ دوبارہ بنوانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

میٹرئیل کی کوالٹی کے حساب سے کروم کی لائف ہوتی ہے۔ ناقص مال سال چھے مہینے میں ہی کروم چھوڑ دیتا ہے اور اچھا والا دس پندرہ سال بھی نکال جاتا ہے۔ ٹھیکیدار نے ظاہر ہے کہ ناقص ہی استعمال کرنا ہوتا ہے لیکن ان حضرات کا فرمانا تھا کہ آپ نے نل صاف نہیں کیے اس لئے کروم اتر گیا ہے اس لئے سینیٹری کا تمام سامان آپ سے چارج کریں گے اور آپ لکڑی کا تمام کام کروانے کے پیسے دیں اور گھر پر رنگ کروانے کا خرچہ دیں کیونکہ ہمیں گھر اسی حالت میں چاہیے جس میں چار سال قبل آپ کو دیا تھا۔ یوں لاکھوں کا حساب بنا کر ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیا گیا۔

اسی اثنا میں دو موٹر سائیکلوں پر ان کے مزید چار آدمی تشریف لائے اور دھمکیاں دیتے ہوئے کہنے لگیں کہ اس نقصان کا پیسہ ابھی واپس کریں ورنہ آپ کو اس گھر میں قید رکھیں گے۔ ساتھ ساتھ یاد دلاتے رہے کہ ان کا تعلق علیم خان سے ہے

ان سے بات چیت کی کہ ہمارا پراپرٹی ڈیلر ساتھ ہے جو ان معاملات کو جانتا ہے اور بتا رہا ہے کہ سیپیج اور دیمک وغیرہ کے نقصان کی ذمہ داری کرائے دار پر نہیں ہوتی، آپ کو یقین نہیں تو ادھر علاقے کے کسی اچھی ریپوٹیشن والے پراپرٹی ڈیلر کے پاس بیٹھ کر اس سے ثالثی کروا لیتے ہیں۔ مگر وہ مصر تھے کہ نہیں آپ سے ہم نے پیسے وصول کرنے ہیں اور جو ہم کہہ رہے ہیں وہی حتمی فیصلہ ہے۔ انہوں نے دھمکیاں دیں اور دباؤ ڈالا کہ جیسے پرسوں چیک دیا تھا ویسے چیک دیں اور ہم سے موقعے پر ہی پیسے پورے کرنے کی کوشش کی۔ ان کی توقع کے خلاف میرے پاس سے چیک بک نہیں ملی جو گزشتہ ملاقات میں میں ساتھ لایا تھا اور چیک کے ذریعے انہیں کرایہ ادا کیا تھا۔ بس کچھ نقد رقم ہی جیب میں تھی جو گئی۔

علیم خان کے نام پر کام کرنے والا بدمعاشوں کا یہ ٹولہ دھمکیاں دینے لگا۔ خیر انہیں کہا کہ پیسے وغیرہ کسی سے منگواتا ہوں۔ انہوں نے بدمعاشی کرتے ہوئے ہم لوگوں سے گاڑی کی چابیاں چھینیں، گاڑی گھر کے اندر لگائی، ہماری غیر موجودگی میں اس کی تلاشی لی اور ابھی ہم نے تفصیل سے نہیں دیکھا کہ اس میں سے کچھ غائب ہے یا نہیں، اور گیٹ کو تالے لگا دیے۔

اسی طرح بطور یرغمال ڈیڑھ گھنٹہ گزارا اور اس دوران ہم نے ایک دوست کو میسیج کر دیا کہ ہمیں رقم کی وصولی کے لئے یرغمال بنایا گیا ہے ہمیں چھڑوانے کا بندوبست کرو۔ انہوں نے 15 پر کال کر دی اور پولیس بھیج دی۔ ان بدمعاشوں کو غالباً اس کی خبر ہو گئی اور پولیس کی آمد سے محض دو تین منٹ پہلے انہوں نے ہمیں گھر سے باہر نکالا اور گھر کو تالے لگا کر رفو چکر ہو گئے۔ پولیس پہنچی۔ اسے صورت حال سے مطلع کیا تو اس نے گھر کے تالے توڑ کر گاڑی ہمیں واپس دلوائی۔ خوش قسمتی سے گاڑی کی ڈپلیکیٹ چابی ہمارے پاس تھی۔ پولیس کے ساتھ ہی تھانے جا کر وقوعے کی رپورٹ کر دی۔

اب اگلے کچھ دن اسی چکر میں گزریں گے۔ دیکھتے ہیں کہ ہم پر پرچے ہوتے ہیں یا پھر بدمعاشی کر کے ہماری ٹانگ توڑی جاتی ہے، دوبارہ یہ بے جا طور پر بنائی گئی یہ رقم زبردستی وصول کرنے کی خاطر حبس بیجا میں رکھا جاتا ہے یا پھر اسلحے کا استعمال ہوتا ہے۔ بہرحال جو بھی ہو، میں یہ بات ریکارڈ پر لا رہا ہوں کہ اس کی ذمہ داری عمران انور ولد محمد انور نامی شخص پر ہو گی جو علیم خان کی کمپنی پارک ویو انکلیو پرائیویٹ لمیٹڈ کا چیف فائنانشل آفیسر ہے۔

علیم خان کو 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے ان کی ”شہرت“ کی وجہ سے ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ بعد میں ضمنی انتخابات میں انہیں ٹکٹ دیے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان افراد کی حرکتوں کو دیکھتے ہوئے جو علیم خان کے نام پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس ”شہرت“ میں مزید اضافہ ہی ہو گا۔ اب علیم خان کو خود دیکھنا ہے کہ ان سے متعلق لوگ ان کے نام پر کیا کیا کر رہے ہیں ، ہماری ذات کا مسئلہ ہے ہم بھگت لیں گے ۔ ان کا سوچیں جن کا کوئی والی وارث نہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar