6 ستمبر پر ایک غدار کا پیغام


\"hashir\"وہ کہتے ہیں قوم کو خوش ہو لینے دو ۔ تاریخ کے کوڑے دان کو مت کریدو۔ اس میں بہت تعفن ہے۔ ڈھکن گرا رہنے دو تاکہ کوئی اس میں جھانک نہ لے ۔ یوں بھی اس بیکار کی تاکا جھانکی سے کیا حاصل ہو گا۔ آپریشن جبرالٹر کی بات مت کرو۔ درہ حاجی پیر کا ذکر مت کرو ۔ رن آف کچھ کے 540 مربع کلومیٹر یاد رکھو ۔ پنجاب اور کشمیر کے 1840 مربع کلومیٹر بھول جاؤ ۔ جو مل گیا اسے یاد رکھ، جو کھو دیا اسے بھول جا۔ یوتھانٹ کے پاس کون گیا تھا اور کوسیجن نے کیا کہا تھا۔ جب کوئی پوچھ نہیں رہا تو بتاتے کیوں ہو ۔ پریڈ شریڈ دیکھو، اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے سنو، سبز پوش بزرگوں کے قصوں سے فیض حاصل کرو ۔ منہ بھر کر بزدل دشمن کو گالیاں دو۔ پرچم لہراؤ، ناچو گاؤ، شہادت اور قربانی وغیرہ وغیرہ کا الاپ جپو، وقت ملے تو واہگہ پر پیر پٹختے سپاہیوں کے لئے سیٹیاں اور تالیاں لیتے جاؤ ۔ دن اچھا گزرے گا ۔ اس کو خراب کیوں کرتے ہو۔ دوسرے کون سا سچ بولتے ہیں جو تمہیں سچائی کا بخار چڑھا ہے اور وہ بھی آج کے دن۔ کیا فائدہ اس سچ کا جو قومی یکجہتی کی دیوار کی دراڑ بنے ۔ جو حب الوطنی کی آگ پر برف کا ٹکور کرنے کی کوشش کرے ۔ جو نفرت کے بہتے دریا پر تنکوں کا بند بنائے ۔ ایسے سچ کیوں یاد ہیں تمہیں ۔ تم سب کی طرح مطالعہ پاکستان کے سبق کیوں نہیں دہراتے۔ سازشی ، غدار ، را کے ایجنٹ ۔
میں سنتا ہوں ۔ سوچتا ہوں کہ کیا ایمانویل کانٹ گدھا تھا جس نے کہا تھا کہ جو درست ہے وہ کرو جو سچ ہے وہ کہو چاہے سارا جہان برباد ہو جائے۔ کیا حبیب جالب احمق تھا جس کو کہا گیا کہ ایسی باتیں کرنے کا موقع نہیں تو بولا کہ میں موقع پرست نہیں ہوں ۔ کیا موہن داس کرم چند گاندھی ہوش میں تھا جب کہتا تھا کہ سچائی مقصد کی محتاج نہیں ہوتی ۔
نفرت کی فصل ہر کچھ برسوں میں پکتی ہے اور ماؤں کے جوان بیٹوں کے سروں کی صورت کاٹ لی جاتی ہے۔ ہاں ، یہ بھی سچ ہے۔ دشمن سپاہی کی بھی ماں ہوتی ہے۔ لاشہ گھر جاتا ہے تو سہاگن کی چوڑیاں ادھر بھی ٹوٹتی ہیں ۔ بہنیں وہاں بھی ایسے ہی بلکتی ہیں۔ اور ادھر کے باپ بھی کھل کر رو نہیں پاتے کہ شہادت کا فخر دکھانا پڑتا ہے ۔ ہزار برس اکٹھے رہنے والوں ، ایک ہی مٹی سے اٹھنے والوں نے ستر سال میں اسی مٹی سے صرف محبتوں کی قبر بنائی ہے ۔ اور اس قبر کے گرد سرحد کے دونوں جانب بھوک ، افلاس ، غربت ، شدت پسندی، کم علمی ، جہالت اورعدم برداشت کے مجاور رقصاں ہیں ۔
ناقابل تسخیر دفاع کا تمغہ کہاں لے کر جاؤں غربت کی لکیر کے نیچے رینگتی ساٹھ فیصد آبادی کے سینے پرلگاؤں ۔ گیسٹرو سے مرتے بچوں کے گلے میں ڈالوں یا کمر ٹوٹے دشمن کو ہر بم دھماکے کے بعد دکھا کر چڑاؤں۔
مجھے دفاع چاہئے ۔ قحط سے دفاع ، سیلاب سے دفاع ، میرے کٹتے جنگلوں کا دفاع ، میرے سوکھے پانیوں کا دفاع ، میری بچیوں کا انسان نما درندوں سے دفاع، میرے لوٹے جانے والے ٹیکس کے پیسوں کا دفاع، میری بند ہوتی صنعتوں کا دفاع، ہسپتالوں کے غلیظ برآمدوں میں پھرتی موت سے دفاع ، اسکولوں میں بندھی گائے بھینسوں سے دفاع، کوچوں بازاروں میں ابلتی گندگی سے دفاع، بند ذہن استادوں سے دفاع ، بدعنوان اہلکاروں سے دفاع۔ جو خود اپنی موت مر رہا ہو اسے دشمن کی کیا ضرورت ہے بھائی ۔ میں بھی جشن منانا چاہتا ہوں پر کس چیز کا جشن مناؤں، سمجھ نہیں پاتا ۔
آج میرا پاسپورٹ دنیا کا بدترین پاسپورٹ ہے۔ میرے ملک میں دنیا میں سب سے زیادہ نو زائیدہ بچے اور ان کی مائیں مرتی ہیں۔ میرے بچے آج بھی پولیو کا شکار ہوتے ہیں۔ اور آپ مجھے خبط عظمت کے درس دیتے ہیں۔ معاف کیجئے گا کہ میں اس پر خوش نہیں ہو سکتا کہ ہندوستان میں زیادہ لڑکیوں کی عصمت دری ہوتی ہے۔ میں اس بات پر شملہ اونچا کر کے نہیں پھر سکتا کہ میں جب چاہوں گائے ذبح کر سکتا ہوں۔ مجھے اس میں فخر محسوس نہیں ہوتا کہ ہندوستان میں لوگوں کے پاس پاکستان سے نسبتا کم بیت الخلا ہیں ۔ جب آپ کے پاس معیشت کے اشاریوں ، علم وہنر اور تحقیق کے اعداد وشمار اور انسانی ترقی کے موازنے ہوں تب بات کیجئے گا ۔ لیکن وہ بات آپ کریں گے نہیں ۔ نہ اب نہ کبھی ۔
مجھے اس کا ادراک ہے کہ نفرت کے پودوں کو دونوں جانب ایک جیسی لگن سے سینچا جا رہا ہے۔ جنگی جنون کے شعلوں میں کشمیر اور بلوچستان کا ایندھن وہ بھی ڈالتے ہیں اور ہم بھی ۔ سوال اس کا نہیں کہ کون زیادہ غلط ہے سوال یہ ہے کہ کون پہلے صحیح راستہ پہچانے گا۔
جنگ ایک بھیانک عفریت ہے۔ آپ لاکھ ملی نغمے بنائیں مجھے اس میں کوئی حسن ، کوئی چاشنی نظر نہیں آتی ۔ 1965 سے اب تک ہم نے کیا حاصل کیا ، کیا کھویا ، کیا پایا ۔ مفروضات اور امکانات نہیں ۔ کڑوی سچائیوں کو ماپ لیجئے گا پھر بات کھلے گی۔ یوم دفاع پر جو پیغام دیا جاتا ہے جو جھوٹی تاریخ سنائی جاتی ہے اس نے کبھی کچے ذہنوں کو بیدار ہونے ہی نہیں دیا ۔ غلطیوں سے سیکھنے کے لئے غلطی تسلیم کرنی پڑتی ہے پر اس کے لئے جو حوصلہ چاہئے وہ کاکول اور ڈیرہ دون تو کیا سینڈ ہرسٹ میں بھی نہیں ملتا۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments