بھینس چوری اور سادہ لوح سیاست دان


مخبر کی اطلاع پر رانا ثنا اللہ کو جب روکا گیا تو انہوں نے سیٹ کے نیچے رکھے سوٹ کیس کی زپ کھول کر منشیات کی نشان دہی کی۔ کروڑوں کی منشیات گاڑی میں رکھے وہ پارٹی میٹنگ میں لاہور جا رہے تھے۔

نرسری کلاس کے بچوں کے معصوم بہانوں جیسا یہ بیان رانا ثنا اللہ کے خلاف ایف آئی آر کٹواتے وقت انٹی نارکوٹکس فورس کی جانب سے سامنے آیا۔

رانا ثنا اللہ کے جرم یا بے گناہی کی لاحاصل بحث کرنے یا تحریک انصاف کے حامیوں کی طرح انہیں مجسم برائی اور مسلم لیگ کے حامیوں کی طرح فرشتہ قرار دینے کی بجائے اس قبیل کی ایف آئی آرز کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہماری سیاسی تاریخ ایسے مقدمات سے بھری پڑی ہے۔

پولیس، ایف آئی اے اور اے این ایف قسم کے ریاستی اداروں کے اہلکار ایسے چغد نہیں ہوتے کہ ایف آئی آر کٹواتے وقت انہیں اندازہ نہ ہو کہ جو رام کہانی وہ سنا رہے ہیں عدالتی سکروٹنی اور وکلا کی جرح میں اس کا کیا حشر ہو گا۔ ان ایف آئی آرز کے حشر سے اگر کوئی ناواقف ہوتا ہے یا دانستہ یاد کرنے کی کوشش نہیں کرتا کہ ماضی میں ان کا کیا نتیجہ نکلا تو وہ ان ریاستی اہلکاروں کے سیاسی آقا ہوتے ہیں۔ جب یہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو اپنی خواہش کے خلاف کچھ سننا پسند نہیں کرتے۔ جب اقتدار سے ہٹتے ہیں تو پھر احساس ہوتا ہے اور ان سے معافی تلافی بھی کر لیتے ہیں جن کو اقتدار میں نشان عبرت بنانے کے درپے ہوتے ہیں۔

سرکاری اہلکار اس تاریخ اور رویئے سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ وہ آقاؤں کے کہنے پر گرفتاریاں اور چھاپے ٹائپ کارروائیاں بھی ڈالتے ہیں اور ایسی مخولیہ ٹائپ ایف آئی آرز، ضمنیاں اور تتمے بھی تیار کراتے رہتے ہیں کہ جن کو نشان عبرت بنانا ہوتا ہے وہ باعزت بری ہو جاتے ہیں۔

ایک لحاظ سے اس طریقہ واردات کو اچھا بھی کہہ سکتے ہیں کہ صاحب اقتدار کا رانجھا بھی راضی ہو جاتا ہے اور کوئی بے گناہ بھی نہیں پھنستا۔

اصل نقصان تاہم اس کا یہ ہے کہ حکمرانوں کی یہ روش اہلکاروں کو کرپٹ کرتی ہے۔ وہ قانون کی ناک مروڑنے کو جائز سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کے سیاسی آقا ان اہلکاروں کی گرفت کرنے کا اخلاقی جواز کھو بیٹھتے ہیں جب یہ حکمرانوں کا ایک کام کر کے اپنے دس کام نکال لیتے ہیں۔

اگر آپ کی یادداشت ساتھ دے تو زیادہ پرانی بات نہیں جب وزیراعظم بننے سے پہلے عمران خان پنجاب پولیس پر متواتر تنقید کرتے تھے۔ پنجاب پولیس کو بالعموم اور دھرنے کے دنوں میں اسلام آباد پولیس کو لیگی حکومت کی کاسہ لیسی پر تنبیہہ کرتے۔ دو تین بار غصے سے بے قابو ہو کر اپنے ہاتھوں سے آئی جی کو پھانسی دینے کی بات بھی کی۔

وزیراعظم کی یہ بات درست تھی کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکار ریاست کے ملازم ہیں، حکومت کے غلام نہیں۔ انہیں اختیار قانون سے ملتا ہے حکومت وقت سے نہیں اور وہ قانون کو جوابدہ ہیں حکمرانوں کو نہیں۔ تاہم یہ باتیں فقط باتیں تھیں۔ سیاسی بنیادوں پر حریفوں کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال آج واضح نظر آتا ہے۔ وزیراعظم جن آدرشوں کا درس دیتے رہے، دیگر بہت سارے معاملوں کی طرح سیاسی مخالفین کے خلاف ریاستی قوت کے استعمال کے ضمن میں بھی وہ بھاشن بازی تک محدود رہے۔

ہماری تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ بھینس چوری کے مقدمے، کلاشنکوفوں کے مقدمے، منشیات کے مقدمے، شراب نوشی کے مقدمے وغیرہ وغیرہ۔ حکمرانوں کی افتاد طبع پر قائم کیے گئے ان مقدمات کا ایک نقصان عام لوگوں کا عدالتی عمل اور اس کی افادیت سے اعتماد اٹھنا بھی ہے۔ یہ صورتحال ادنی ترین سطح پر سماجی بے چینی اور لاتعلقی جبکہ انتہائی سطح پر عملی لاقانونیت اور طوائف الملوکی تک لے جا سکتی ہے۔

آج ایک عام شخص بالخصوص کسی نوجوان سے احتساب یا کسی سیاسی، فوجی یا بیورو کریٹ پر مقدمے کے بارے میں بات کریں تو ابتدائی جوابات کچھ اس قسم کے ملیں گے۔ ”دیکھ لیجیے چھوٹ جائے گا“۔ ”قانون تو بس غریبوں کے لئے ہے“۔ ”یہ سب اندر سے ایک ہیں“ وغیرہ وغیرہ۔ یہ جوابات لاتعلقی (indifference) کے عکاس ہیں، نظام پر عدم اعتماد کے آئینہ دار ہیں۔ جب یہ لاتعلقی زیادہ ہو تو لوگ طالع آزماؤں کی آمد پر مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔ یعنی اپنی ہی حق تلفی اور سب سے بڑی لاقانونیت کا جشن مناتے ہیں۔

اس صورت حال کے ذمہ دار وہ سب لوگ ہیں جو با اختیار عہدوں پر رہے اور جنہوں نے قانون کو ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی سمجھا۔ جنہوں نے اپنے اختیار کو دائمی جانا اور قانونی اختیار استمعال کرتے ہوئے قانونی محددات کو بھول گئے۔ اس میں سیاسی حکمران، فوجی اشرافیہ، اعلی عدالتی شخصیات اور بیوروکریسی سب شامل ہیں۔

لیکن اول الذکر یعنی سیاسی حکمرانوں کے علاوہ باقی سب عہدے سے علیحدگی پر منظر سے بھی غائب ہو جاتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے محض پچھلے دس پندرہ سال کی اعلی عسکری و عدالتی شخصیات کی آج کی مصروفیات پر نظر ڈال لیجیے۔ بے اثر ہیں یا خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جن کی چشم برہم دیکھ کر دوڑیں لگ جاتی تھیں آج سرد فضاؤں میں پھرتے ہیں یوسف بے کارواں ہو کر۔ جن کو شکریہ کہتے لوگوں کی زبانیں نہیں سوکھتی تھیں آج شاہوں کے شکر گزار ہیں۔ گھر سے باہر قدم دھرتے ہی جن کے لئے ہٹو بچو کی صدائیں سنائی دیتی تھیں آج یہی صدائیں وہ کسی اور کے لئے بلند کر رہے ہیں۔

شب و روز کا یہ الٹ پھیر سیاست دانوں کو بھی درپیش ہوتا ہے لیکن یہ سختیاں انہیں توڑتی نہیں، سیکھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ انہیں اپنی بقا کے لئے لوگوں کی طرف پلٹنا ہوتا ہے۔ کہ سیاست دان حق اختیار عوام سے لیتا ہے۔ اسی لئے سیاست دان ہی اس صورت حال کو درست کرنے کے ذمہ دار ہیں تاکہ جب لوگوں کے پاس جائیں تو بتا سکیں کہ انہوں نے وقت سے کیا سیکھا اور بہتری کی جانب کیا پیش رفت ہوئی۔ ریاستی اہلکاروں سے یہ سوال کوئی نہیں پوچھتا۔

عمران خان کو بھی حقیقی اختیار کے لئے عوام کے پاس جانا ہو گا۔ گرچہ بظاہر نادیدہ ہاتھ دیدہ دلیری سے وہ اختیار برت رہے ہیں جو لوگوں کا ہے اور لوگوں کے نمائندوں کے لئے ہے۔ تاہم خوش قسمتی سے اجتماعی معاشرتی شعور میں ہر گزرتے دن کے ساتھ دائمی اداروں کے سیاسی رسوخ کی قبولیت کی گنجائش محدود ہوتی جا رہی ہے۔ اس سوچ کے ساتھ بتدریج اجتماعی حیات کے تناظر میں سیاست کاری کے لئے زیادہ گنجائش پیدا ہو گی۔ کہ اجتماعی انسانی شعور حاصل کردہ آزادیوں سے دستبردار نہیں ہوتا۔ یہ مسلسل پیش رفت سست رو سہی لیکن خوش آئند ہے۔

وسیع تر ہوتا یہ میدان عمل سیاست دانوں سے وسعت فکر و نظر کا متقاضی ہے۔ وزیراعظم کو اپنے حلقے میں اے این ایف کے کسی سابق اہلکار کے ازکار رفتہ مشورے کی بجائے ان آدرشوں کی سرگوشی پر دھیان دینا چاہیے جن کی تکرار وہ حکومت میں آنے سے پہلے باآواز بلند کرتے رہے ہیں۔ بھینس چوری کے مقدمات کا دور لد چکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).