اپوزیشن کی رہبر کمیٹی


کہتے ہیں شہرِ اقتدار میں افواہیں نہیں ہوتیں بلکہ ’پری میچور فیکٹس‘ ہوتے ہیں جن پر کان دھر کر آپ سیاسی اُفق پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا وقت سے پہلے اندازہ لگا سکتے ہیں۔

چند ایک افواہوں پر یقین کرتے ہوئے بیشتر افراد کی طرح میں بھی یہی سوچتا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں نے جس دن اپنے آپسی شکوک وشبہات اور وقتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر حکومتِ وقت کے خلاف طبل جنگ بجا دیا اور حکومتی صفوں میں سے چند دیوار پر بیٹھے پرندوں یا ٹھوس سیاسی اصطلاح میں فصلی بٹیروں کو ساتھ ملا لیا تو چند ووٹوں پر کھڑی اس حکومت کو شاید بچانے والے بھی نا بچا پائیں۔ مجھے لگتا تھا کہ معاملات دوبارہ قبل از وقت الیکشن کی طرف جائیں گے، پھر مخلوط حکومت ٹائپ چیز وجود میں آئے گی اور ایسا نا ہونے کی صورت میں نظام گرنے کا خطرہ لاحق ہوجائے گا کیوں کہ پاکستان جیسے ملک میں جمہوریت کو آنی جانی چیز سمجھا جاتا ہے۔

میں بھی سوچتا تھا کہ جیسے کہا جاتا ہے کہ اقتدار میں بیٹھے نواز شریف سے زیادہ اقتدار سے باہر کا نواز شریف خطرناک ہے ٹھیک اسی طرح شاید اقتدار میں بیٹھے مولانا سے زیادہ پارلیمنٹ لاجز سے باہر کا مولانا خطرناک ہو۔ 25 جولائی کے بعد کسی کٹی پتنگ کی طرح ادھر اُدھر ڈولتے مولانا کے چہرے کی شکنیں مجھے حکومت کو ایک لمحہ مزید دیتی نا دکھائی دیں۔ پہلے 10 ملین پھر ایک ملین اور آخر میں 25 لاکھ افراد لانے کا دعویٰ کرنے والے مولانا کی تعداد میں لغزش مگر عزم میں استقامت نظر آئی۔

مجھے بھی ایسا لگتا تھا کہ والد آصف علی زرداری کی نیب کے ہاتھوں بقول اُن کے ایک سیاسی کیس میں گرفتاری کے بعد سندھ کی عوام بلاول کو اُن کی ’حکومت گراو‘ لات پر مجبور کر دے گی۔ وہ اُس گرفتاری سے سیخ پا عوامی ردعمل کی تاب نہ لاتے ہوئے اسلام آباد کا رخ کرلیں گے۔ وہ جو کبھی تخت رائیونڈ کی دیواریں ہلانے کی بات کرتے تھے تب ایسا نہ کرنے والے آج اپنے والد کا بدلہ لینے یقیناً اس حکومت کو گرا کر ہی دم لیں گے۔

ایک عام خیال کے مطابق اپنے والد کی گرتی ہوئی صحت پر پریشان مریم نواز بھی اپنے چچا شہباز شریف کو ساتھ ملائے سویلین بالادستی کا علم بلند کیے حکومت کا گریبان پکڑیں گی اور اب کی بار نالائق اعظم کو ایوان اقتدار سے نکال باہر کریں گی۔ اپنے والد کے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ بحیثیتِ نائب صدر ن لیگ اپنی مہنگائی، ڈالر، بیروزگاری کی ستای عوام کو گھروں سے نکالیں گی اور بس پھر حکومت آج گئی یا کل گئی۔

لگ یہ بھی رہا تھا کہ جب سے حکومت وجود میں آئی ہے تب سے ہر شادی پر ایک ناراض پھپو کا رول کرنے والے سردار اختر مینگل اب کی بار واقعی ہی حکومت کی جانب سے اپنے 6 نکاتی ایجنڈے پر عدم توجہی کو بنیاد بنا کر اپوزیشن سے ہاتھ ملا کر اُن کے ساتھ حزبِ اختلاف کی بینچوں پر بیٹھ کر اس حکومت کو چلتا کریں گے۔

مجھے تو یہ بھی شبہ تھا کہ آفتاب شیرپاؤ بھی اپنی شکست کا بدلہ اس دھاندلی زدہ حکومت سے لینے کو بیتاب ہیں، آخر وہ ایک ایسی حکومت کو ایک لمحہ بھی مزید ٹھہرنے کیوں دیں جو کہ مینڈیٹ چوری کر کہ اور جمہوریت پر شب خون مار کر اقتدار میں آئی ہو۔

مولانا فضل الرحمن اپنے دائیں جانب بلاول بھٹو کو اور بائیں جانب شہباز شریف کو بٹھا کر اپنی آٹھ گھنٹوں پر محیط آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ 20 منٹ میں میڈیا کے سامنے بیان فرما کر گئے تو میرے ذہن کے تمام شکوک وشبہات دم توڑ گئے۔ اے پی سی میں کوئی ٹھوس فیصلہ سامنے نہ آ سکا، سامنے آئی تو منتخب اور غیر منتخب بیانیوں میں ایک جنگ۔ وہ جنہوں نے حکومت کو ہٹانا تھا وہ صرف چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے پر آمادہ ہوئے۔ جنہوں نے سڑکوں پر عوام نکالنی تھی وہ احتجاجی تحریک کی ایک کال پر بھی منقسم دکھائی دیے۔

جو غیر منتخب ہیں وہ توڑ دو اور پھوڑ دو کی ذہنیت سے چیزوں کو دیکھ رہے ہیں جب کہ منتخب افراد مفاہمت اور مل ملا کے چلنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ جو غیر منتخب ہیں وہ سوچ رہے ہیں کہ ہم نہیں تو کوئی نہیں جب کہ منتخب لوگ کہ رہے ہیں کہ اس بار جو ہاتھ آیا غنیمت ہے ممکن ہے آگے یہ بھی نصیب نہ ہو۔ ہاں ایک رہبر کمیٹی کا اعلان ضرور ہوا لیکن جیسے حالات ہیں لگ رہا ہے کہ اُس کمیٹی کے ممبران ایک دوسرے کے کان میں یہی سرگوشیاں کرتے پھریں گے کہ

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پُکار میں چلاوں ہائے دل

واصب امداد
Latest posts by واصب امداد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).